کیا کوئی انسان “قطب” بن سکتا ہے؟کیا کوئی انسان “قطب” بن سکتا ہے؟
قطب” بننے کا عقیدہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، یہ صوفیانہ اصطلاح ہے جو باطل تصورات اور شرک اور غلو پر مبنی ہے، اور توحیدِ خالص کے منافی ہے۔
قطب” بننے کا عقیدہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، یہ صوفیانہ اصطلاح ہے جو باطل تصورات اور شرک اور غلو پر مبنی ہے، اور توحیدِ خالص کے منافی ہے۔
اللہ کے علاوہ “غوثِ اعظم” (یعنی سب سے بڑا فریادرس) کا تصور قرآنِ مجید سے ثابت نہیں، نہ نبی ﷺ کی تعلیمات سے، نہ صحابۂ کرامؓ کے عمل سے۔ یہ
ولی اللہ کی بیعت کوئی واجب نہیں، بلکہ بیعت صرف نبی ﷺ کے ہاتھ پر واجب تھی، اور نبی کے بعد صرف خلیفۂ مسلمین کی بیعت شرعی حیثیت رکھتی ہے۔
خطا ہر بشر سے ممکن ہے، حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام سے بھی۔ وہ معصوم ہوتے ہیں گناہِ کبیرہ اور دین میں غلطی سے، مگر اجتہادی خطائیں ان سے بھی
نہیں، خلافتِ راشدہ منصوص من اللہ (یعنی اللہ کی طرف سے براہِ راست مقرر کردہ) نہیں ہے، بلکہ یہ شورائیت، اجماعِ صحابہؓ، اور نبی ﷺ کی رہنمائی کے تحت انسانوں
نہیں، مروجّہ بارہ اماموں کا عقیدہ قرآن سے ہرگز ثابت نہیں۔ قرآنِ مجید نے صرف نبیوں کی امامت، خلافت، اور ہدایت کا ذکر کیا ہے، اور نبی محمد ﷺ کے
نہیں، “امام” معصوم نہیں ہوتا۔ اسلام میں معصوم صرف انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچاتا ہے اور وحی کے ذریعے ہدایت عطا کرتا ہے۔ انبیاء
نہیں، امامت نبوت کا تسلسل نہیں ہے۔ جو یہ عقیدہ رکھے کہ “امامت” نبوت کی طرح اللہ کی طرف سے منصوص اور معصوم قیادت ہے تو یہ قرآن، سنت اور
جی ہاں، امام حسنؓ کی صلح بالکل جائز، حکمت پر مبنی، اور سنتِ نبوی کے مطابق تھی عین پیشن گوئی پر مبنی تھی۔ انہوں نے یہ صلح امتِ مسلمہ کے
نہیں، علیؓ کو خلافت کا پہلا حق حاصل نہ تھا، بلکہ خلافت کا پہلا مستحق وہی تھا جسے امت نے اتفاقِ رائے سے چنا، یعنی ابوبکر صدیقؓ۔ خلافت کا نظام