فرقے کے نام پر مسجد بنانا جائز ہے؟فرقے کے نام پر مسجد بنانا جائز ہے؟
اسلام میں فرقے بنانا ہی حرام ہے تو فرقے کے نام پر مسجد بنانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ بلکہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف، تفرقہ پروری کی
اسلام میں فرقے بنانا ہی حرام ہے تو فرقے کے نام پر مسجد بنانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ بلکہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف، تفرقہ پروری کی
اسلام میں فرقے بنانا ہی حرام ہے تو فرقے کے نام پر مسجد بنانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ بلکہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف، تفرقہ پروری کی
امت کی دو قسمیں ہیں “امتِ دعوت” اور “امتِ اجابت” یہ تقسیم قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح اور مدلل ہے۔ اس کی بنیاد توحید اور رسالت کی قبولیت
قرآن و سنت کی روشنی میں ائمہ کا اختلاف نہ تو دلیل ہے، نہ ہی اندھی تقلید کا جواز۔ دین کی دلیل صرف اللہ کا کلام اور رسول ﷺ کی
قرآن و سنت کی روشنی میں “اختلافِ امت رحمت ہے” کہنا نہ صرف باطل ہے بلکہ گمراہی کی ترویج ہے۔ دینِ اسلام میں اصل اصول اتحاد، اجتماع، اور اطاعتِ رسول
جی ہاں، قرآنِ مجید ہمیں صرف “مسلمان” (مُسلِم) کہنے کا حکم دیتا ہے، نہ کہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ، سنی، صوفی یا کوئی اور گروہی نام۔ یہ مسئلہ براہِ
جی ہاں، فرقہ بندی حرام ہے۔ اسلام میں دین کو گروہوں، فرقوں، یا ٹولیوں میں بانٹنا ایک واضح حرام عمل ہے، جس کی قرآن میں سخت مذمت کی گئی ہے،
“صرف شیعہ نجات پائیں گے” کا عقیدہ نہ قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہے، نہ نبی کریم ﷺ کی کسی صحیح حدیث سے۔ بلکہ یہ دعویٰ فرقہ پرستی، توحید
نہیں، اللہ کے مقرب بندے، انبیاء ہوں یا اولیاء، کائنات کے نظام میں دخل دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ کائنات کا سارا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں