کیا اولیاء کو مرنے کے بعد بھی تصرف حاصل ہے؟کیا اولیاء کو مرنے کے بعد بھی تصرف حاصل ہے؟
نہیں، اولیاء اللہ مرنے کے بعد کسی قسم کا تصرف، مدد، فیض یا قدرت نہیں رکھتے۔ تصرف صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور موت کے بعد کوئی انسان
نہیں، اولیاء اللہ مرنے کے بعد کسی قسم کا تصرف، مدد، فیض یا قدرت نہیں رکھتے۔ تصرف صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور موت کے بعد کوئی انسان
قبروں پر عرس منانا، میلاد کی محفلیں کرنا، چراغاں، میلے، نیازیں اور رسومات ادا کرنا شریعت میں جائز نہیں بلکہ یہ بدعت اور بسا اوقات وادیِ شرک میں لے جاتے
صوفیاء کا مخصوص طریقۂ ذکر، جیسا کہ اجتماعی حلقے بنا کر، اونچی آواز میں اللہ اللہ کہنا، وجد میں آنا، رقص، دف، قوالی یا مخصوص حرکات کے ساتھ ذکر کرنا
جی ہاں، ربیع الاول کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ ہو اس میں میلاد منانا ایک بدعت ہے، کیونکہ یہ نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ نبی ﷺ کی
محرم ہو یا کوئی اور مہینہ، ماتم کرنا، سینہ کوبی، نوحہ، زنجیر زنی یہ سب قرآن، سنت کے خلاف اعمال و بدعات ہیں۔ قرآن صبر کا حکم دیتا ہے اور
قبروں پر چراغاں کرنا نہ صرف سنتِ نبوی ﷺ کے خلاف ہے، بلکہ یہ شرک کا چور دروازہ ہے، کیونکہ اس سے قبروں کی تعظیم و تقدیس کا وہ راستہ
صلوۃ کے بعد اجتماعی دعا نبی ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ یہ بعد میں ایجاد کی گئی رسم ہے، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ نبی کریم ﷺ نماز کے بعد مسنون
دین میں نہ فاتحہ پڑھنے کا مروجہ انداز ثابت ہے، نہ اس کے لیے کوئی مخصوص دن مقرر کرنا جائز ہے، بلکہ یہ دین میں نیا اضافہ ہے جس کی
تیجہ، چالیسواں، اور برسی بدعت ہیں، سنت نہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ کے سنہری دور میں سے کسی نے بھی میت کی وفات کے تیسرے، چالیسویں، یا سال
نہ ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے، نہ ختمِ قرآن جیسی رسم جائز ہے، کیونکہ یہ دونوں امور قرآن و سنت کے مطابق نہیں بلکہ خودساختہ بدعات میں سے ہیں، جن