کیا ہر نیا عمل بدعتِ ضلالہ ہے؟کیا ہر نیا عمل بدعتِ ضلالہ ہے؟
دین میں ہر نیا عمل “بدعتِ ضلالہ” (گمراہی والی بدعت) ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب کسی نئے عقیدے، ذکر، طریقۂ ثواب، یا شرعی رسم کو شریعت کے نام
دین میں ہر نیا عمل “بدعتِ ضلالہ” (گمراہی والی بدعت) ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب کسی نئے عقیدے، ذکر، طریقۂ ثواب، یا شرعی رسم کو شریعت کے نام
“نمازِ غوثیہ” جیسی مخصوص عنوانات کے ساتھ مخصوص رکعات، مخصوص سورتیں، اور مخصوص نیت سے پڑھی جانے والی نمازیں شریعت میں ثابت نہیں، بلکہ یہ سب دین میں ایجاد کردہ
عید میلاد النبی ﷺ منانا نہ فرض ہے، نہ سنت، بلکہ یہ دین میں ایجاد کردہ بدعت ہے، جس کا کوئی ثبوت قرآن، حدیث یا صحابہؓ کی زندگی سے نہیں
عید میلاد النبی ﷺ منانا نہ فرض ہے، نہ سنت، بلکہ یہ دین میں ایجاد کردہ بدعت ہے، جس کا کوئی ثبوت قرآن، حدیث یا صحابہؓ کی زندگی سے نہیں
اولاً: ہماری پہچان مسلم ہونی چاہئے چاہے دوسرے نام کتنے ہی اچھے کیوں نہ لگیں۔ اسے اپمی شناخت نہ کرائیں۔ اگر لغوی معنی کے مطابق سوال ہو تو اہلِ سنت
“آمین بالجہر” (صلوۃ میں سورۃ الفاتحہ کے بعد اونچی آواز سے آمین کہنا) نبی کریم ﷺ سے صحیح احادیث سے ثابت ہے، اس لیے یہ بدعت نہیں بلکہ سنت نبوی
صلوۃ میں رفع یدین (یعنی رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت ہاتھ اٹھانا) ایک سنت و ثابت عمل ہے، لیکن یہ فرض و واجب نہیں ہے۔ نبی ﷺ سے
صلوۃ دین کا ستون ہے، اور اس کے بعد جو اذکار مشروع ہیں، وہ انفرادی طور پر نبی ﷺ سے ثابت ہیں۔ لیکن فرض نماز کے بعد اجتماعی ذکریعنی سب
اذان اسلامی شعار ہے، اور اس کے بعد جو کچھ مشروع ہے وہ بھی سنت سے ثابت ہونا چاہیے۔ اذان کے بعد درود پڑھنا اگر نبی ﷺ یا صحابہؓ سے
روزے کی راتوں میں بیوی کے پاس جانا (یعنی ازدواجی تعلق قائم کرنا) جائز اور حلال ہے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت کے ساتھ اجازت دی گئی ہے۔ اُحِلَّ