قرآنِ کریم کے مطابق اگر اللہ تعالیٰ ہر گناہ اور ظلم پر فوراً گرفت کرتا، تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہتا۔ لیکن اللہ اپنی رحمت اور حکمت سے مهلت دیتا ہے، تاکہ لوگ توبہ کریں، رجوع کریں یا ان کی آزمائش مکمل ہو۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ ٱللَّهُ ٱلنَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَآبَّةٍۢ وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر فوراً پکڑنے لگے تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے، لیکن وہ ایک مقرر وقت تک مہلت دیتا ہے۔
(النحل 61)
مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ
یعنی زمین پر کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہ بچتا۔
وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ
اللہ کی مہربانی و حکمت کہ وہ لوگوں کو فوراً عذاب میں نہیں پکڑتا، بلکہ وقت دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں، رجوع کریں، یا پھر ان کے اعمال مکمل ہو جائیں۔
اللہ کی رحمت غالب ہے، اسی لیے گناہگاروں کو بھی مهلت ملتی ہے۔ اگر فوراً سزا دی جائے تو کوئی نہ بچے ۔ نہ انسان، نہ جانور۔ دنیا آزمائش کی جگہ ہے، اسی لیے فوری پکڑ نہیں ہوتی، لیکن انجام سے کوئی بچ نہیں سکتا۔