اصحابِ کہف کا واقعہ دین پر استقامت، قربانی، اور اللہ پر کامل توکل کا بے مثال نمونہ ہے۔ ان نوجوانوں کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب ایمان خطرے میں ہو تو جان، مال، عزت و آرام سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے، لیکن دین نہیں۔
دین کے بارے میں استقامت اور قربانی کا سبق
ظلم و جبر کے ماحول میں بھی ایمان پر قائم رہنا
إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا۟ بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَـٰهُمْ هُدًۭى
یقیناً وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنے رب پر ایمان لایا، تو ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا۔
(الکہف 13)
وہ نوجوان تھے (جذبہ، توانائی، مستقبل کے خواب رکھنے والے) انہوں نے بادشاہ کے ظلم، معاشرے کے دباؤ، اور اپنے مستقبل کی پرواہ نہ کی۔ صرف ایک مقصد تھا توحید اور ایمان کی حفاظت بس۔
اللہ کی خاطر سب کچھ چھوڑ دینا
وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً ۭ لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۢ بَيِّنٍ ۭ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَيُهَــيِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا اورہم نے ان کے دلوں کو مضبوط فرما دیا جب وہ (بادشاہ کے سامنے) کھڑے ہوئے تو انھوں نے کہا ہمارا ربّ آسمانوں اور زمینوں کا ربّ ہے ہم اس کے سوا ہرگز کسی معبود کی پوجا نہیں کریں گے (اگر ایسا ہوا) تب تو ہم خلاف ِ حق بات کہیں گے۔ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنھوں نے اس (اللہ) کے سوا کئی معبود بنا لیے یہ ان پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے پس اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ اور جب تم ان سے الگ ہو چکے اور ان سے بھی جن کی وہ اللہ کے سِوا پوجا کرتے ہیں تو (اب) غار میں پناہ لے لو تمھارا ربّ تمھارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمھارے لیے تمھارے کام میں آسانی مہیا فرمائے گا۔
(الکہف 14 تا 16)
وہ قوم کی شرک بھری روایات سے الگ ہو گئے، جانتے تھے کہ یہ اعلان انھیں قتل، قید یا اذیت دلا سکتا ہے۔ مگر انھوں نے کہا ہمارا رب صرف وہی ہے جس نے آسمان و زمین بنائے
ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت (غار میں پناہ)
اِذْ اَوَى الْفِتْيَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
(یادکیجیے) جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو انھوں نے کہا اے ہمارے ربّ ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے معاملے میں رہ نمائی مہیا فرما۔
(الکہف 10)
وہ غار میں گئے کیوں؟
کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا ایمان نہ بگڑے، نہ جھکے، نہ مٹایا جائے۔ انہوں نے سہولت، گھر، معاش، سماجی عزت سب کچھ چھوڑا۔
اللہ پر توکل اور صبر کا صلہ
اللہ نے انہیں صدیوں تک نیند میں محفوظ رکھا۔ ان کی قربانی کو درسِ نصحیت اور ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔ انہوں نے ایمان، توحید، اور عقیدہ کی حفاظت کے لیے سب کچھ چھوڑا، اس لئے کہ انھوں نے جانا کہ دین وہ خزانہ ہے جس کے لیے جان بھی قربان کی جا سکتی ہے ان کے نزدیک سب سے قیمتی چیز ربُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ ہمارا رب وہی ہے جو سب کا خالق ہے۔
اصحابِ کہف ہمیں سکھاتے ہیں کہ اگر ایمان بچانا ہو تو غار کی تنہائی تخت کی غلامی سے بہتر ہے۔ دین پر استقامت صرف کہنے سے نہیں آتی، وہ قربانی مانگتی ہے۔جان، وقت، آرام، تعلقات سب کچھ۔