اللہ تعالیٰ قرآن میں معاف کرنے والوں کے لیے کیا خوشخبری دیتا ہے؟

قرآنِ حکیم میں معاف کرنے والوں کو نہایت بلند مقام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح فرمائی جو دوسروں کی زیادتیوں کو درگزر کرتے ہیں اور معافی کو اختیار کرتے ہیں، کیونکہ یہ صفت اللہ کی رحمت، تقویٰ، اور جنت کا راستہ ہے۔ معاف کرنا صرف ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ ایمان کی پختگی اور اللہ کے قرب کی علامت ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَسَارِعُوٓا۟ إِلَىٰ مَغْفِرَةٍۢ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا ٱلسَّمَـٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ – ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِى ٱلسَّرَّآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَٱلْكَـٰظِمِينَ ٱلْغَيْظَ وَٱلْعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے، جو خوشحالی اور تنگی میں خرچ کرتے ہیں، غصے کو پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(آلِ عمران 133-134)

یہ آیت معافی کو تقویٰ اور احسان جیسی صفات کے ساتھ جوڑتی ہے اور معاف کرنے والوں کے لیے اللہ کی محبت اور جنت کی خوشخبری سناتی ہے۔

اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے کہ

وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
اور جو صبر کرے اور معاف کر دے، تو یقیناً یہ بڑے حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔
(الشورىٰ 43)

یہاں معاف کرنا کمزوری نہیں بلکہ بلندیِ کردار اور قوتِ ارادہ کی علامت بتایا گیا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور نفس پر قابو رکھتے ہیں۔

ایک اور مقام پر فرمایا

فَمَنۡ عَفَا وَأَصۡلَحَ فَأَجۡرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ
پس جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔
(الشورىٰ 40)

یعنی معاف کرنے والا انسان دنیا میں چاہے کچھ بھی کھو دے، مگر اس کا بدلہ براہِ راست اللہ کی طرف سے ملے گا، جو یقیناً سب سے بہتر اور عظیم بدلہ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں معاف کرنے والوں کو اللہ کی محبت، جنت کی بشارت، عظیم اجر اور بلند ہمت والے لوگوں میں شمار کرنے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ معافی اختیار کرنا نفس کی تربیت، روح کی بلندی، اور بندوں سے اللہ کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ رویہ انسان کو رب کی رحمت کے دائرے میں لے آتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا مشرکین مکہ بھی اولیاء کو وسیلہ بناتے تھے؟کیا مشرکین مکہ بھی اولیاء کو وسیلہ بناتے تھے؟

توحید اور شرک کے درمیان جو سب سے بنیادی فرق قرآن نے واضح کیا، وہ وسیلے کا غلط مفہوم ہے۔ مشرکینِ مکہ اللہ کے وجود کو مانتے تھے، لیکن اللہ

کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب / سولی دی گئی تھی؟کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب / سولی دی گئی تھی؟

عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھائے جانے کا معاملہ اسلام میں ایک واضح اور منفرد موقف رکھتا ہے، جو قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔