قرآن میں دوسروں کا مذاق اُڑانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

قرآنِ کریم نے دوسروں کا مذاق اُڑانے کو ایک سخت اخلاقی جرم اور مؤمن کی شان کے خلاف عمل قرار دیا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے بلکہ تکبر، حسد، اور نفاق جیسی مہلک بیماریوں کی علامت بھی ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں اہل ایمان کو اس سے باز رہنے کی تاکید کی ہے، کیونکہ مذاق اُڑانا باہمی نفرت، دلوں کی دوری، اور معاشرتی بگاڑ کا ذریعہ بنتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌۭ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُونُوا۟ خَيْرًۭا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌۭ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُنَّ خَيْرًۭا مِّنْهُنَّ ۖ
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے وہ (جن کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے) ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ہی عورتیں عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔
(الحجرات 11)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مذاق اُڑانا برتری کا گمان، تحقیر اور دل شکنی پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برتری تقویٰ اور عمل صالح سے ہے، نہ کہ ظاہری حالات یا شکل و صورت سے۔

اسی آیت کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے
وَلَا تَلْمِزُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا۟ بِٱلْأَلْقَـٰبِ ۖ بِئْسَ ٱلِٱسْمُ ٱلْفُسُوقُ بَعْدَ ٱلْإِيمَـٰنِ ۚ
اور ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو، اور نہ برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے۔
(الحجرات 11)

یہ تعلیم ہمیں سکھاتی ہے کہ طنز، طعنہ زنی، اور لقب بازی جیسے افعال بھی مذاق اُڑانے میں شامل ہیں، اور یہ سب فسق (نافرمانی) کے اعمال ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی سیرت بھی قرآن کے ان اصولوں کی عملی مثال ہے۔ آپ ﷺ نہ خود کسی کا مذاق اُڑاتے تھے، نہ دوسروں کو اس کی اجازت دیتے تھے۔ آپ کا فرمان ہے

المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
(صحیح بخاری)

یعنی کسی کی توہین، مزاح میں بھی، ایمان کے منافی عمل ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں دوسروں کا مذاق اُڑانے کو ایک گناہ آلود اور فسق والا عمل قرار دیا گیا ہے۔ یہ غرور، کمزوریوں پر ہنسی، اور احساسِ برتری جیسی اخلاقی بیماریوں کی علامت ہے۔ مؤمن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی ظاہری حالت، زبان، نسل، یا حالات پر ہنسے، کیونکہ اللہ کے نزدیک اصل معیار تقویٰ اور اخلاص ہے، نہ کہ دنیاوی ظاہری حیثیت۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد آزر کو کن دلیلوں سے شرک سے روکا؟ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد آزر کو کن دلیلوں سے شرک سے روکا؟

ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد آزر کو نرمی، حکمت، اور دلیل کے ساتھ شرک سے روکا۔ قرآن مجید نے ان کے مکالمے کو کئی جگہوں پر نقل کیا ہے،