قرآنِ مجید میں فحاشی اور بے حیائی کو معاشرے کی تباہی، فرد کی روحانی ہلاکت، اور اللہ کی نافرمانی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خود بے حیائی کرنے سے روکا ہے بلکہ اس کے قریب بھی جانے سے منع فرمایا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں شرم و حیا کو ایمان کا حصہ بتایا گیا ہے، اور قرآن نے بارہا فحاشی سے اجتناب کی سخت تاکید کی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّىَ ٱلْفَوَٰحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ
کہہ دو! میرے رب نے تو تمام فحش باتوں کو حرام کیا ہے، خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی۔
(الأعراف 33)
اس آیت میں واضح ہے کہ ظاہری اور باطنی بے حیائی دونوں حرام ہیں خواہ وہ عمل، نظر، گفتگو، لباس یا نیت کی صورت میں ہو۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ظاہری حرکات کے ساتھ دل کی نیتوں کو بھی دیکھتا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَا تَقْرَبُوا۟ ٱلزِّنَىٰٓ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ فَـٰحِشَةًۭ وَسَآءَ سَبِيلًا
اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ، یقیناً وہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا راستہ ہے۔
(الإسراء 32)
یہ آیت بتاتی ہے کہ اسلام صرف زنا کو حرام نہیں کہتا، بلکہ اس کے قریب جانے والے ہر ذریعہ جیسے نظربازی، خلوت، فحش کلامی یا غیر شرعی تعلقات کو بھی ممنوع قرار دیتا ہے۔ فحاشی کی جڑیں چھوٹی باتوں سے شروع ہو کر بڑے گناہوں تک جاتی ہیں، اس لیے قرآن نے اس کے تمام دروازے بند کر دیے۔
اللہ تعالیٰ نے النور میں بھی فرمایا
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلْفَـٰحِشَةُ فِى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ ۚ
بے شک وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی پھیل جائے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
( النور 19)
یہ آیت ان لوگوں کو سخت تنبیہ کرتی ہے جو فحاشی کو فروغ دیتے ہیں، خواہ وہ میڈیا، مذاق، لباس، یا دوسرے ذرائع سے ہو۔ اسلام صرف فرد کی نہیں، پورے معاشرے کی پاکیزگی چاہتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے فحاشی اور بے حیائی کو حرام، خبیث، اور تباہ کن عمل قرار دیا ہے، اور اس کے قریب جانے سے بھی سختی سے منع فرمایا ہے۔ حیا ایمان کی شاخ ہے، اور فحاشی ایمان کو کھا جاتی ہے۔ ایک مؤمن کا کردار حیا، پاکدامنی، اور نفس پر قابو کا آئینہ دار ہوتا ہے، اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔