قرآنِ حکیم کے مطابق انصاف صرف قانون کا تقاضا نہیں بلکہ ایمان اور تقویٰ کا عملی مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے، چاہے وہ دوست ہو یا دشمن، قریبی ہو یا اجنبی۔ انصاف کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا معیار قرار دیا ہے، کیونکہ عدل کے بغیر معاشرہ ظلم، فتنہ اور بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّـٰمِينَ لِلَّهِ شُهَدَآءَ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ ۚ ٱعْدِلُوا۟ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر قائم رہنے والے اور حق کی گواہی دینے والے بنو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
( المائدہ 8)
یہ آیت ایک ہمہ گیر اصول فراہم کرتی ہے کہ عدل ہر حال میں لازم ہے، خواہ مخالف قوم سے معاملہ ہو یا دشمن کے ساتھ۔ قرآن کہتا ہے کہ دشمنی اور نفرت بھی انسان کو انصاف سے ہٹنے کا جواز نہیں دیتی۔ عدل کا پیمانہ شخصی تعلق نہیں، بلکہ خالصتاً اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ انصاف صرف دوسروں کا حق ادا کرنے کا عمل نہیں بلکہ یہ انسان کے اندرونی اخلاق اور تقویٰ کی گواہی ہے۔
إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ وَإِيتَآىِٕ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ
بے شک اللہ حکم دیتا ہے انصاف، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا…
(النحل 90)
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ انصاف وہ ستون ہے جس پر ایک صالح اور پرامن معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں عدل نہیں، وہاں ظلم بڑھتا ہے، دلوں میں نفرت جڑ پکڑتی ہے، اور اللہ کی برکتیں چھن جاتی ہیں۔ مسلمان کی پہچان صرف عبادت نہیں، بلکہ عدل پر قائم رہنا ہے، خواہ فیصلہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔