قُرآنِ حکیم میں غرور اور خود پسندی کو سخت ناپسندیدہ صفات قرار دیا گیا ہے، جو انسان کو ہلاکت، تباہی اور اللہ کی ناراضی تک پہنچاتی ہیں۔ غرور دراصل دل کی وہ بیماری ہے جو انسان کو سچ قبول کرنے سے روکتی ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ قُرآن میں یہ صفات شیطان، فرعون، اور دیگر سرکش اقوام کی ہلاکت کی بنیادی وجہ قرار دی گئی ہیں۔
وَلَا تَمْشِ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ ٱلْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ ٱلْجِبَالَ طُولًا
اور زمین میں اکڑ کر مت چلو، یقیناً نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو، اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔
( الإسراء 37)
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍۢ فَخُورٍۢ
بے شک اللہ کسی مغرور اور شیخی خور انسان کو پسند نہیں کرتا۔
( لقمان 18)
قرآن انسان کو بار بار یاد دلاتا ہے کہ تکبر صرف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ وہی خالق، مالک اور سب سے بلند ہے۔ جو انسان اللہ کی نعمتوں پر فخر کرتا ہے اور اسے اپنی محنت کا نتیجہ سمجھ کر دوسروں کو حقیر جانتا ہے، وہ قرآن کے مطابق شیطان کی راہ پر ہے۔ یہی تکبر تھا جس نے شیطان کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے روکا، اور وہ ہمیشہ کے لیے ملعون قرار پایا۔
خود پسندی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان اصلاح کے دروازے خود پر بند کر لیتا ہے۔ وہ تنقید قبول نہیں کرتا، نصیحت سے بیزار ہوتا ہے، اور اپنی برتری کے خمار میں حق سے دور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو نہ بات کرنے کی اجازت ملے گی اور نہ ہی ان کے لیے نجات کا کوئی راستہ ہوگا۔
قُرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ عاجزی، انکساری اور شکرگزاری ہی بندگی کی اصل روح ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، وہی اللہ کے نزدیک بلند ہے۔ حقیقی ایمان اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنی کمزوریوں کو پہچان کر اللہ کے سامنے جھک جائے، اور دوسروں کو حقیر نہیں بلکہ بھائی سمجھے۔ غرور ہلاکت کی علامت ہے، اور تواضع نجات کی راہ۔