قرآنِ حکیم بدگمانی کو ایک خطرناک اخلاقی بیماری قرار دیتا ہے، جو انسان کے دل و دماغ کو آلودہ کرتی ہے اور معاشرے میں نفرت، فساد اور بداعتمادی کو جنم دیتی ہے۔ بدگمانی کا مطلب ہے بغیر تحقیق اور دلیل کے کسی کے بارے میں منفی سوچنا یا اس پر برا گمان کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس رویے سے سختی سے روکا ہے، کیونکہ یہ شیطان کی چالوں میں سے ایک چال ہے جو بھائی چارے کو توڑتی ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ ۖ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا۟ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور تجسس نہ کرو، اور نہ ہی تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔
( الحجرات 12)
اس آیت میں بدگمانی کو گناہ کہا گیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گمان صرف ذہنی رویہ نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک ایک اخلاقی جرم بن سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ بلا ثبوت ہو اور کسی کے بارے میں منفی سوچ کو بڑھائے۔ یہی گمان تجسس، غیبت اور الزام تراشی جیسے دیگر گناہوں کو جنم دیتا ہے۔
بدگمانی انسان کے دل میں حسد، کینہ، اور نفرت پیدا کرتی ہے، جس سے نہ صرف انسان خود پریشان ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ مومن کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن رکھے، اور اگر کوئی بات مشتبہ ہو تو تحقیق اور عدل کے ساتھ معاملہ کرے۔
نتیجتاً، قرآن ہمیں ایک پاکیزہ اور صاف دل رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ بدگمانی صرف تعلقات کو خراب نہیں کرتی، بلکہ انسان کی روحانیت اور اخلاق پر بھی ضرب لگاتی ہے۔ جو شخص دوسروں پر اچھا گمان رکھتا ہے، وہ دل کا سکون، اللہ کی رضا، اور معاشرتی اعتماد کا ماحول پاتا ہے۔ اس لیے بدگمانی کو ترک کرنا تقویٰ کی علامت اور اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔