قرآن مجید کے مطابق سب سے پہلے مشرک قوم کی طرف جس ہستی کو نبی بنا کر بھیجا گیا، وہ نوح علیہ السلام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے سب سے پہلے انہیں اپنی وحی، ہدایت اور دعوت کے لیے منتخب فرمایا۔ آدم علیہ السلام پہلے انسان اور پہلے خلیفہ تھے، مگر نبوت کے آغاز کا باقاعدہ سلسلہ نوح علیہ السلام سے شروع ہوا، جنہیں اللہ نے ان کی قوم کے لیے رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ انہیں توحید کی طرف بلائیں اور شرک، ظلم اور گناہ سے روکیں۔
إِنَّآ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (یہ حکم دے کر) کہ اپنی قوم کو ڈراؤ، اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آ جائے۔
(نوح 1)
نوح علیہ السلام کو اللہ نے اس وقت نبی بنا کر بھیجا جب زمین پر انسانوں میں گمراہی، شرک اور اخلاقی بگاڑ عام ہو چکا تھا۔ انہوں نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا، لیکن قوم نے ان کی بات ماننے سے انکار کیا اور انہیں جھٹلایا۔ اس طویل دعوت کے باوجود جب ان کی قوم ہدایت قبول نہ کر سکی، تو اللہ نے طوفان کے ذریعے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔
قرآن میں نوح علیہ السلام کو مشرک قوم کی طرف اوّل الرسول یعنی پہلے رسول کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ سورہ نساء میں اللہ فرماتا ہے
إِنَّآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ كَمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ نُوحٍۢ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ مِنۢ بَعْدِهِۦ
بے شک ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف بھی وحی بھیجی۔
(النساء 163)
یہ آیت صاف ظاہر کرتی ہے کہ نوح علیہ السلام کو سب سے پہلے نبوت کا شرف دیا گیا، اور پھر ان کے بعد دیگر انبیاء کا سلسلہ جاری ہوا۔
نوح علیہ السلام کی سیرت ہمیں صبر، استقامت اور دعوت کے فریضے میں لگن سکھاتی ہے۔ ان کی زندگی اس بات کی روشن مثال ہے کہ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے، ہمارا فرض صرف خلوص سے پیغام پہنچانا ہے۔ ان کی دعوت کا آغاز بھی توحید سے ہوا، اور انجام اللہ کی نصرت و مدد پر یقین کے ساتھ۔ ہمیں انبیاء کی سیرت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب معاشرہ گمراہی میں ہو، تب بھی حق کی آواز کو بلند کرنا ہی اصل بندگی ہے۔