ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کی بنیاد بھی خالص توحید یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک سے مکمل انکار تھی۔ انہوں نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا، ستاروں، چاند اور سورج کو معبود ماننے کے باطل نظریے کو رد کیا، اور دلیل و حکمت کے ساتھ یہ واضح کیا کہ رب صرف وہی ہو سکتا ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا، خالق اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعوت نہ صرف شرک کے رد پر مبنی تھی بلکہ انہوں نے قوم کے جھوٹے معبودوں کی کمزوری کو ان کے سامنے لا کر توحید کی سچائی واضح کی۔
ابراہیم علیہ السلام نے نہایت دانشمندی سے قوم کے مذہبی نظام پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے ستارے کو دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہی عمل چاند اور سورج کے ساتھ بھی کیا، تاکہ قوم کو سمجھایا جا سکے کہ جو چیزیں خود فنا ہو جاتی ہیں، وہ رب نہیں ہو سکتیں۔ ان کا رب صرف وہی ہے جو ہمیشہ زندہ ہے اور جس نے سب کو پیدا کیا۔
قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱتَّقُوهُ ۖ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
ابراہیم نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔
(العنکبوت 16)
یہی وہ نکتۂ توحید ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری دعوت استوار کی۔ انہوں نے باپ کو بھی روکا، قوم کو بھی روکا، اور یہاں تک کہ بتوں کو توڑ کر قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا کہ آخر تم کن چیزوں کو رب مانتے ہو جن کو تم خود تراشتے ہو!
یعنی ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا جوہر صرف ایک رب کی طرف رجوع تھا۔ ایسا رب جو دیکھتا ہے، سنتا ہے، پیدا کرتا ہے، اور فنا سے پاک ہے۔ ان کی دعوت آج بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ اگر ہدایت چاہیے، تو سب سے پہلے دل سے ہر جھوٹے الہٰ کا انکار اور صرف ربِّ حقیقی کا اقرار لازم ہے۔ یہی توحید، دین کا پہلا، بنیادی اور دائمی پیغام ہے۔