جی ہاں، قرآن مجید کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت صرف روحانی اصلاح یا اخلاقی نصیحت تک محدود نہ تھی بلکہ وہ ایک مکمل نظامِ زندگی کی دعوت دیتے تھے جس میں سیاست، عدل و انصاف، معاشرت اور معیشت کے اصول بھی شامل تھے۔ انبیاء نے محض ذاتی عبادات کی طرف نہیں بلایا، بلکہ اللہ کی حاکمیت، اس کے قانون، اور زمین پر اس کے عدل کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلْقِسْطِ
یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل کا معیار) نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
(الحديد 25)
یہ آیت انبیاء کی بعثت کا مقصد بیان کرتی ہے کہ وہ صرف عقیدے کی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ زمین پر عدل و قسط قائم کرنے کے لیے بھی بھیجے گئے تھے۔ اس میں الکتاب (شریعت) اور المیزان (نظامِ عدل) دونوں کا ذکر ہے، جو ان کی دعوت کے مکمل اور جامع ہونے کی دلیل ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے باطل نظام کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ بغاوت کیا اور بنی اسرائیل کو ظالمانہ سیاسی غلامی سے نجات دلائی۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کے تجارتی دھوکے اور معاشی ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ نبی کریم ﷺ نے مکہ میں صرف اللہ کہو کی دعوت نہیں دی بلکہ پورے طاغوتی نظام کا انکار کیا، اور مدینہ میں ریاست، قانون، معاہدات، عدل، اور جنگ و امن کی مکمل پالیسی نافذ کی۔
ٱللَّهُ وَلِيُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ
اللہ ایمان والوں کا ولی ہے جو انہیں ظلمتوں (باطل نظاموں) سے نکال کر نور (الٰہی نظام) کی طرف لاتا ہے۔
(البقرہ 257)
یہ آیت بتاتی ہے کہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ بندہ ہر باطل، استبدادی اور جابرانہ نظام کو ترک کرے اور اللہ کے نورانی نظام کا حصہ بنے۔
انبیاء کی دعوت میں صرف عبادات یا اخلاق کی بات نہیں تھی، بلکہ وہ ایک ربانی حکومت، عدل پر مبنی سیاست، اور اللہ کی شریعت پر قائم نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ ان کی دعوت کا اصل محور توحید تھا، اور توحید کا عملی تقاضا یہی ہے کہ صرف اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو اور انسان صرف اسی کی اطاعت کرے۔ انبیاء نے ہر طاغوتی نظام کو للکارا، اور اللہ کے دین کو زمین پر نافذ کرنے کے لیے پوری زندگی وقف کی۔