قرآن مجید کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں صبر ایک بنیادی اور لازمی عنصر رہا ہے۔ عقیدۂ توحید کی طرف بلانا ہمیشہ آسان نہیں رہا، کیونکہ یہ دعوت جاہلانہ روایات، طاقتور سرداروں، اور موروثی شرک پر ضرب لگاتی تھی۔ انبیاء نے اس راہ میں مذاق، تکذیب، طعن، قید، تشدد، اور جلاوطنی جیسے شدید امتحانات کا سامنا کیا، لیکن انہوں نے اپنے رب پر بھروسا رکھا اور صبر کے پہاڑ بنے رہے۔ ان کا صبر دراصل ان کے اخلاص، یقین، اور اپنی دعوت پر پختہ ایمان کا مظہر تھا۔
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌۭ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا۟ عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا۟ وَأُوذُوا۟ حَتَّىٰٓ أَتَىٰهُمْ نَصْرُنَا
اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا، تو انہوں نے صبر کیا ان تکذیبوں اور اذیتوں پر، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔
(الأنعام 34)
یہ آیت انبیاء کے صبر کی عظمت اور اللہ کے وعدۂ نصرت کی یاد دہانی ہے۔ صبر صرف برداشت کا نام نہیں، بلکہ اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹنے کا، وقت کی آزمائشوں میں ڈٹے رہنے کا، اور اللہ کی نصرت پر یقین رکھنے کا نام ہے۔ انبیاء کے صبر کا مقصد صرف خود کو بچانا نہ تھا، بلکہ اپنی امت کو باطل سے نجات دلانا اور انہیں ہدایت تک پہنچانا تھا۔
فَٱصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْعَزْمِ مِنَ ٱلرُّسُلِ
پس صبر کرو جیسا کہ پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا۔
(الأحقاف 35)
اللہ تعالیٰ نبی محمد ﷺ کو دیگر انبیاء کے صبر کی مثال دے کر صبر کی تلقین فرما رہا ہے۔ یہ دعوت کے راہ پر چلنے والوں کے لیے ایک زریں اصول ہے کہ صبر کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ انبیاء نے تکلیفوں کو برداشت کر کے اپنی امت کے لیے ہدایت کے دروازے کھولے۔
انبیاء کے صبر نے ان کی دعوت کو دوام بخشا اور حق کے پیغام کو ظلمت میں روشنی بنایا۔ ان کا صبر ایک عملی مثال ہے کہ عقیدہ کی اصلاح صرف زبانی دعوت سے نہیں بلکہ قربانی، ثابت قدمی، اور صبر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہر داعیٔ حق کے لیے انبیاء کا صبر مشعلِ راہ ہے، جو اسے مخالفتوں میں تھامے رکھتا ہے اور اللہ کی مدد کا منتظر بناتا ہے۔