قرآن مجید کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا محور ہمیشہ عقیدہ رہا ہے، یعنی اللہ کی وحدانیت، رسالت پر ایمان، اور قیامت کے دن کے حساب پر یقین۔ انبیاء نے سب سے پہلے اپنی قوموں کے عقائد کی اصلاح کی، کیونکہ عقیدہ انسان کی سوچ، عمل، تعلقات، انصاف، معاشرت اور سیاست کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ آج کے معاشروں میں فکری انتشار، مادہ پرستی، نفس پرستی اور اخلاقی زوال کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اعتقاد و ایمان کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات کے بجائے دنیاوی مفادات، انسانوں کے بنائے ہوئے اصول، یا خالص مادی مقاصد بن چکے ہیں۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُۥ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُسْلِمِينَ
کہہ دیجیے یقیناً میری صلوۃ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔
(الأنعام 162-163)
یہ آیات بتاتی ہیں کہ عقیدہ انسان کی زندگی کی بنیاد ہے۔ جب انسان اپنی ذات، مقصد، فیصلے اور موت کو اللہ کے تابع کر دیتا ہے، تو وہ ہر جھوٹے نظام سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہی پیغام انبیاء کا تھا، اور یہی پیغام آج بھی ہر ایسے معاشرے کے لیے نجات دہندہ ہے جہاں طاقت حق بن چکی ہو، اور جہاں نفس و مفاد کو دین پر ترجیح دی جا رہی ہو۔
وَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ
جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، تو یقیناً اس نے ایک مضبوط کڑے کو تھام لیا ہے۔
(البقرہ 256)
یہی عقیدہ انسان کو ہر ظالم قوت، باطل نظام اور اندھی تقلید سے نجات دلاتا ہے۔ انبیاء نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا، تو سب سے پہلے قوموں کے غلط عقائد، توہمات، جھوٹے معبودوں، اور ناحق نظاموں کو چیلنج کیا۔ یہ عمل صرف مذہبی اصلاح نہیں تھا، بلکہ ایک سماجی، فکری، اور سیاسی انقلاب تھا۔
انبیاء کی اعتقادی دعوت آج کے معاشروں کو بتاتی ہے کہ صرف نظام بدلنے سے فلاح نہیں آتی جب تک دل اور فکر تبدیل نہ ہو۔ ایمان کے بغیر قانون بے جان ہے، اور عقیدے کے بغیر انصاف کھوکھلا۔ اگر آج کا انسان اپنی زندگی کو اللہ کی بندگی، آخرت کے یقین، اور انبیاء کی رہنمائی کے تابع کرے، تو فرد اور معاشرہ دونوں میں ایک فطری اور دیرپا انقلاب ممکن ہے۔ انبیاء کی دعوت آج بھی زندہ ہے وہی توحید، وہی آزادی، وہی روشنی۔