آج کے زمانے میں دینی دعوت میں اعتقادی (عقیدے سے متعلق) پہلو عمومی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کا ظاہری عمل تو باقی ہے، مگر اس کی روح یعنی توحید، رسالت اور آخرت پر پختہ ایمان کمزور پڑ چکا ہے۔ دعوت کے اس رخ میں کمزوری نے دین کو رسموں، گروہی تعصبات اور سطحی عبادات تک محدود کر دیا ہے، جبکہ انبیاء کی دعوت کی بنیاد ہمیشہ عقیدے کی اصلاح رہی ہے۔
قَالُوا۟ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ ٱللَّهَ وَحْدَهُۥ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا
وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور چھوڑ دیں وہ (بت) جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے؟
(الاعراف 70)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب انبیاء نے عقیدے کی دعوت دی، تو قوموں نے اس بنیادی پیغام کو چیلنج کیا، کیونکہ یہ ان کے رائج رسم و رواج اور معاشرتی نظام سے ٹکراتی تھی۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہے دینی دعوتیں اکثر رسمی عبادات، اخلاقی نصیحت یا فقہی جزئیات میں تو سرگرم ہیں، لیکن ایمان کی اصلاح، شرک کی نفی، طاغوت کا انکار، اور توحید کی دعوت پر سنجیدہ توجہ کم دکھائی دیتی ہے۔
عصر حاضر میں مذہب کو صرف روحانی سکون یا مذہبی تہوار کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ عقیدہ، جو کہ انسانی زندگی کی بنیاد اور نظامِ الٰہی سے ربط کی کلید ہے، وہ کمزور ہونے کی وجہ سے دین کا فکری اور عملی ڈھانچہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں عبادات کے باوجود ظلم، ناانصافی، منافقت اور دنیا پرستی بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ ایمان کی جڑیں کمزور ہو چکی ہیں۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ دینی دعوت کی اصل، ایمان باللہ اور کفر بالطاغوت ہے۔ جب تک دعوت میں یہ اعتقادی مرکزیت بحال نہیں ہوتی، اصلاح سطحی رہے گی۔ انبیاء کی سنت یہی ہے کہ دلوں کو توحید کے لیے زندہ کیا جائے، تبھی اعمال میں اخلاص، اور نظام میں عدل پیدا ہوتا ہے۔ آج کی دعوت کو واپس اسی فکری بنیاد کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔