نبی ﷺ نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے کیوں منع فرمایا؟

قرآنِ مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو پکارنا، دعا کرنا یا مدد کے لیے فریاد کرنا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے۔ اسلام کی اصل بنیاد یہی ہے کہ ہر حاجت، ہر دعا اور ہر امید صرف اللہ کی ذات سے وابستہ ہو۔ انبیاء علیہ السلام اور اولیاءؒ کو اللہ کے نیک بندے ماننا لازم ہے، مگر انہیں حاجت روا، مشکل کشا یا فریاد رس سمجھنا قرآن کے صریح احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہیں، وہ دراصل توحید کی حدود سے نکل کر شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں، چاہے ان کا ارادہ نیکی یا محبت کا ہو۔

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًۭا مِّنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اللہ کے سوا ایسے کو نہ پکار جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر تُو نے ایسا کیا تو تُو یقیناً ظالموں میں سے ہو جائے گا۔
( یونس 106)

یہ آیت صاف طور پر اعلان کرتی ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا ظلم ہے، اور ظلم کا مطلب یہاں شرک ہے۔ کوئی بھی نبی، ولی، یا فرشتہ اللہ کے اذن کے بغیر نہ کچھ دے سکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔ قرآن میں ان مردوں کے بارے میں فرمایا گیا جو قبروں میں ہیں کہ

إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا۟ دُعَآءَكُمْ ۖ وَلَوْ سَمِعُوا۟ مَا ٱسْتَجَابُوا۟ لَكُمْ
اگر تم انہیں پکارو، تو وہ تمہاری دعا نہ سنیں گے، اور اگر سن بھی لیں، تو تمہیں جواب نہیں دے سکتے۔
(فاطر 14)

یہ دلائل ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ عبادت اور دعا کا حق صرف اللہ کو ہے۔ نبی ﷺ کی پوری دعوت توحید کے گرد گھومتی تھی، اور آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی قبر یا مزار پر جا کر دعا مانگنے کی ترغیب نہیں دی۔ ایمان کی اصل یہی ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ ہی سے مانگے، اور اسی پر توکل کرے۔

لہٰذا، قرآن کا واضح پیغام ہے پکارنا ہو تو صرف اللہ کو، مانگنا ہو تو صرف اللہ سے۔ یہی توحید کا تقاضا ہے اور یہی نجات کا راستہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا قرآن میں کسی نبی نے قبر پر جا کر دعا مانگی؟کیا قرآن میں کسی نبی نے قبر پر جا کر دعا مانگی؟

قرآنِ مجید نے انبیاء علیہم السلام کی زندگی کے متعدد پہلو تفصیل سے بیان فرمائے ہیں، جن میں ان کی دعائیں، عبادات، دعوتِ توحید، اور شرک کے خلاف جدوجہد شامل

غزوہ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟غزوہ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

قرآنِ مجید نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر اس لیے کیا تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو تسلی، حوصلہ اور یقین ملے کہ وہ اکیلے نہیں لڑ رہے،