اسلام نے قبر پرستی، شرک، اور قبروں کی تعظیم سے روکنے کے لیے کئی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ انہی میں سے ایک تدبیر نبی کریم ﷺ کی یہ سنت تھی کہ آپ نے بلند قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا، تاکہ لوگ انہیں عبادت گاہ نہ بنائیں، یا ان کی تعظیم میں غلو نہ کریں۔ یہ اقدام عقیدۂ توحید کی حفاظت، دین کی اصل روح کو برقرار رکھنے، اور بدعات کی بیخ کنی کے لیے کیا گیا۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ أَلَّا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ
علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا اور فرمایا کسی بھی مجسمے کو نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا، اور کسی بھی اونچی قبر کو نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کر دینا۔
(صحیح مسلم، حدیث 969)
یہ فرمان ایک جامع دینی ہدایت ہے جس کا مقصد توحید کو محفوظ رکھنا ہے۔ نبی ﷺ نے اونچی قبروں کو گرانے کا حکم اس لیے دیا۔
تاکہ لوگ قبروں کو عبادت گاہ نہ بنائیں بلند قبریں رفتہ رفتہ لوگوں کو تعظیم اور پھر عبادت کی طرف مائل کر دیتی ہیں، جیسا کہ پچھلی امتوں میں ہوا۔
شرک کے دروازے بند کرنا بلند قبریں تعظیم اور وسیلہ پرستی کا ذریعہ بن جاتی ہیں، جو شرک کا مقدمہ ہے۔
سنت کی مخالفت کا سدباب نبی ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی قبریں سادہ تھیں، لہٰذا قبروں کی تزئین یا بلندی بدعت ہے۔
توحید کی عملی تربیت یہ تعلیم امت کو سکھاتی ہے کہ عزت و محبت صرف اللہ کی ذات کے لیے مخصوص ہے، بندہ مخلوق کو پکار کر رب کے مقام پر نہیں لا سکتا۔
بلند اور نمایاں قبروں کو برابر کرنے کا حکم کوئی ظاہری انتظامی قدم نہیں، بلکہ یہ توحید کے قلعے کی فصیل ہے۔ اگر قبریں اونچی ہونے لگیں، قبے اور زیارت گاہیں بننے لگیں، تو اصل دین کی جگہ بدعت اور شرک لے لیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ نبی ﷺ کی اس تعلیم پر عمل کریں، اور قبر پرستی کی ہر صورت سے بچیں تاکہ ہمارا دین خالص اللہ کے لیے رہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
(البینہ 5)
یہی خالص بندگی ہے، یہی سنتِ نبوی ہے، اور یہی نجات کی راہ ہے۔