کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟

اسلام میں القابات اور عناوین کا استعمال شرعی نصوص اور صحابہ و تابعین کے تعامل کی روشنی میں ہی معتبر ہوتا ہے۔ بعض صوفی سلسلوں میں غوث، قطب، ابدال، اوتاد وغیرہ کے القابات مخصوص بزرگوں کو دیے جاتے ہیں، اور ان سے مافوق الاسباب اختیارات منسوب کیے جاتے ہیں، جو شرعی اصولوں سے متصادم ہیں۔ قرآن و سنت میں ان القابات کا نہ کوئی ثبوت ہے، نہ ان سے منسلک عقائد کا۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔
(الأنبياء 25)

غوث جسے مدد دینے والا یا جہان کا دستگیر کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ کے وصف الغیاث یا المغیث سے مشابہ ہے، جو صرف اللہ کے لیے جائز ہے۔

قطب جسے نظامِ عالم کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور بھی کسی مخلوق کو ربوبیت کے دائرے میں داخل کرنا ہے، جو توحید ربوبیت کی خلاف ورزی ہے۔

ابدال و اوتاد جنہیں زمین پر نظامِ الٰہی کے محافظ مانا جاتا ہے یہ تصوف میں ماورائی قوتوں کے حامل سمجھے جاتے ہیں، جبکہ قرآن و سنت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔

قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ…
کہہ دو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر اختیار رکھتے ہیں نہ زمین میں…
(سبأ 22)

رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی صحابی کو غوث، قطب یا ابدال نہیں کہا۔ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ جیسے عظیم صحابہ کو بھی یہ القابات نہیں دیے گئے، حالانکہ وہ افضل لوگ تھے۔

ان القابات کا وجود قرآن، حدیث، اجماع اور صحابہ کے عمل میں نہیں ملتا، بلکہ یہ بعد کے صوفی نظریات سے آئے۔

اسلام میں کوئی روحانی غوث، قطب یا نظامِ ولایت کا مرکز مقرر نہیں کیا گیا۔ صرف اللہ ہی نظام عالم کو چلاتا ہے، اور ہر مدد، عطا اور ولایت اسی کے اختیار میں ہے۔ لہذا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا کوئی شرعی جواز نہیں۔ ان سے منسلک اختیارات اللہ کی صفات میں اشتراک کے مترادف ہوتے ہیں، جو توحید کے خلاف ہے۔

دین مکمل ہو چکا، اور اس میں ایسے نظریات کی گنجائش نہیں جو وحی کے ماخذ سے باہر ہوں۔ہمیں نبی ﷺ کی سکھائی ہوئی توحید اور صحابہ کے فہم دین پر ہی قائم رہنا ہے۔

نبی جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس سے روکیں، رک جاؤ۔
( الحشر 7)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

تکبر کرنے والوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟تکبر کرنے والوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟

قرآنِ حکیم میں تکبر کو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَبیشک اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(

کیا انبیاء اخلاقی تعلیمات سے پہلے عقیدہ کی تعلیم دیتے تھے؟کیا انبیاء اخلاقی تعلیمات سے پہلے عقیدہ کی تعلیم دیتے تھے؟

قرآنِ حکیم کے مطابق تمام انبیاء علیہ السلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز ہمیشہ عقیدہ یعنی توحید کی تعلیم ہوتا تھا، نہ کہ محض اخلاقی اصلاحات سے۔ انبیاء علیہ السلام

قبروں پر قبے بنانا نبی ﷺ کی سنت کے خلاف کیوں ہے؟قبروں پر قبے بنانا نبی ﷺ کی سنت کے خلاف کیوں ہے؟

قبروں پر قبے بنانا بظاہر ایک تعظیمی عمل سمجھا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ عمل نبی کریم ﷺ کی سنت اور قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ شریعت اسلامیہ میں