شرک کا تعلق براہِ راست عقیدۂ توحید سے ہے، اور یہ وہ گناہ ہے جس کے بارے میں قرآن واضح کرتا ہے کہ اگر کوئی اس پر قائم رہتے ہوئے مر جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص شرک سے توبہ کر کے سچے دل سے توحید اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اسے معاف کر دیتا ہے۔ اس مسئلے میں قرآن کا بیان انتہائی واضح اور فیصلہ کن ہے، کیونکہ توحید اسلام کی بنیاد ہے اور شرک اس کی ضد۔ شرک اتنا سنگین گناہ ہے کہ فرمایا
“إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًۭا عَظِيمًۭا”
“بے شک اللہ یہ (گناہ) نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے، اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے، اس نے بڑا بہتان باندھا۔”
(النساء: 48)
“إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ”
“بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔”
(المائدہ: 72)
“قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِن يَنتَهُوا۟ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ ۖ”
“کہہ دو ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔”
(الأنفال: 38)
نبی ﷺ نے خود ان لوگوں کی تربیت فرمائی جو سابقہ زندگی میں مشرک تھے، اور انہیں خالص توحید کی طرف بلایا۔ خالد بن ولیدؓ، عمرؓ، ابوسفیانؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ اسلام لانے سے قبل شرک میں مبتلا تھے، لیکن ایمان لانے کے بعد ان کے تمام گناہ معاف ہو گئے۔
شرک وہ عظیم گناہ ہے جس پر موت آئے تو اللہ کی مغفرت سے محرومی یقینی ہے، لیکن توبہ، توحید، اور خالص ایمان کے ساتھ رجوع کرنے والے کے لیے اللہ کے دروازے کھلے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر اس عقیدے اور عمل سے بچیں جو شرک کی طرف لے جائے، اور خالص توحید پر قائم رہیں، تاکہ دنیا و آخرت کی فلاح حاصل ہو۔