اسلام میں قبر پر عبادت کرنا یا کسی قبر کو عبادت کی جگہ بنانا سختی سے منع ہے، چاہے وہ قبر نبی کریم ﷺ کی ہی کیوں نہ ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، جو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ اور دین کی فقیہہ تھیں، انہوں نے قبرِ نبوی پر عبادت یا سجدہ کرنے سے منع کیا اور اس عمل کو دین کے خلاف قرار دیا۔ ان کا یہ موقف قرآن و سنت کی روح کے عین مطابق ہے۔
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًا
اور بے شک مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔
(الجن 18)
خود ام المومنین عائشہؓ کی وضاحت یہ ہے کہ
اگر قبرِ رسول کو کھلے عام رکھا جاتا تو لوگ اسے سجدہ گاہ بنا لیتے، مگر اسے چھپا دیا گیا تاکہ شرک کا دروازہ بند رہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الجنائز)
مزید یہ کہ
نبی ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے لعنت فرمائی ان یہود و نصاریٰ پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
(بخاری 1330، مسلم 529)
سیدہ عائشہؓ نے کبھی نبی ﷺ کی قبر پر جا کر نہ عبادت کی، نہ دعا مانگی، نہ کوئی سجدہ یا نذر و نیاز پیش کی۔
انہوں نے قبر کو عبادت کا مقام بنانے والوں کو گمراہی پر قرار دیا۔
یہی وجہ تھی کہ قبرِ نبوی کو حجرہ میں چھپایا گیا تاکہ عوام اسے سجدہ گاہ نہ بنائیں۔
قُلْ إِنَّمَآ أَدْعُوا۟ رَبِّى وَلَآ أُشْرِكُ بِهِۦٓ أَحَدًۭا
کہہ دیجئے میں تو اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔
(الجن 20)
عائشہؓ نے قبرِ نبوی پر عبادت کی ہر صورت کو مسترد کیا۔ ان کا عمل اور قول واضح کرتے ہیں کہ قبر پر عبادت، دعا یا سجدہ شرک کا دروازہ ہے۔ توحید کے تحفظ کے لیے صحابہ کرامؓ نے قبر نبوی کو سجدہ گاہ بننے سے محفوظ رکھا۔ محمد ﷺ کی سیرت، اور سیدہ عائشہؓ کی فقاہت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دین صرف اللہ کے لیے ہے، اور قبروں پر عبادت یا وسیلہ پرستی شرعی طور پر ممنوع اور نبی ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔