شرک کب اور کیسے انسان کے تمام اعمال کو باطل کر دیتا ہے؟

قرآنِ مجید کے مطابق شرک وہ گناہ ہے جو انسان کے تمام نیک اعمال کو باطل (ضائع) کر دیتا ہے، چاہے وہ جتنے بھی عبادات، صدقات یا بھلائیاں کرے۔
جب کوئی انسان اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے یعنی عبادت، دعا، سجدہ، نذر یا توکل غیراللہ کے لیے کرتا ہے تو اس کا عمل اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں رہتا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَقَدْ أُوحِىَ إِلَيْكَ وَإِلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ
یقیناً تمہاری طرف اور تم سے پہلے لوگوں کی طرف وحی کی گئی اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے، اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔
(الزمر 65)

یہ خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے، لیکن اصل مقصد تمام انسانوں کو خبردار کرنا ہے کہ شرک کتنا بڑا خطرہ ہے۔

اللہ نے فرمایا

إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ
جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
(المائدہ 72)

یعنی شرک نہ صرف اعمال کو ضائع کرتا ہے، بلکہ جنت سے بھی محروم کر دیتا ہے۔

ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے

لَا يُغْفَرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ
اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا، اور اس کے سوا جو گناہ ہو، جسے چاہے معاف کر دے گا۔
(النساء 48)

پس، جب انسان شرک کرتا ہے، تو اس کا توحید کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے، اور اس کے نیک اعمال بھی اللہ کے ہاں بے وزن ہو جاتے ہیں۔

وَقَدِمْنَآ إِلَىٰ مَا عَمِلُوا۟ مِنْ عَمَلٍۢ فَجَعَلْنَـٰهُ هَبَآءًۭ مَّنثُورًۭا
اور ہم ان کے کیے ہوئے اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے، اور انہیں اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔
(الفرقان 23)

خلاصہ یہ کہ شرک ایک ایسا گناہ ہے جو بندے کے تمام اعمال کو ختم کر دیتا ہے، خواہ وہ کتنا بھی نیک کیوں نہ ہو۔
اسی لیے قرآن بار بار توحید کی تاکید کرتا ہے، اور شرک سے بچنے کی سخت تنبیہ کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے آغاز میں اللہ نے ان کو کیا اسباق سکھائے؟موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے آغاز میں اللہ نے ان کو کیا اسباق سکھائے؟

موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ایک عظیم الشان واقعے سے ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست ان سے “وادئ مقدس طُویٰ” میں خطاب فرمایا۔ اس ابتدائی

کیا انسان کی تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی ہے؟ یا وہ خود تقدیر لکھتا ہے؟کیا انسان کی تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی ہے؟ یا وہ خود تقدیر لکھتا ہے؟

قرآن و سنت کے مطابق انسان کی تقدیر پہلے سے اللہ تعالیٰ کے علم اور حکم سے لکھی جا چکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم اور فیصلہ پیدائش