قرآن نبیوں کی اطاعت اور عبادت میں کیا فرق بیان کرتا ہے؟

قرآنِ مجید نے نبیوں کی اطاعت کو ایمان کا حصہ قرار دیا، جبکہ عبادت کو صرف اللہ کے لیے خاص کیا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اللہ کے بندے اور رسول ہوتے ہیں، ان کی پیروی فرض ہے، لیکن ان کو معبود بنانا شرک ہے۔

مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ
جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
(النساء 80)

یعنی رسول کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے، کیونکہ رسول وہی بات کرتے ہیں جو اللہ کا حکم ہو۔ اس لیے ان کی بات ماننا، ان کی سنت پر عمل کرنا، ان کے فیصلے کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔

لیکن عبادت کے بارے میں قرآن کا حکم ہے

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
(الفاتحہ 5)

عبادت میں سجدہ، دعا، نذر، قربانی، اور دل کا جھکاؤ شامل ہے یہ سب صرف اللہ کے لیے جائز ہیں، کسی نبی یا ولی کے لیے نہیں۔ اگر کوئی نبی کو پکارے، ان سے مدد مانگے، یا ان کے لیے سجدہ کرے، تو یہ عبادت میں داخل ہو کر شرک بن جاتا ہے۔

وَمَآ أُمِرُوا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ
انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ خالص اللہ کی عبادت کریں۔
(البینہ 5)

پس، قرآن کا واضح فرق یہ ہے کہ

اطاعت = نبیوں کی بات ماننا، ان کی پیروی کرنا (لازم)
عبادت = اللہ ہی کو معبود ماننا، صرف اسی کو پکارنا (توحید)

انبیاء نے ہمیشہ توحید کی دعوت دی، اور خود کبھی اپنی عبادت نہیں کروائی۔ ان کی اطاعت باعثِ نجات ہے، اور ان کی عبادت گمراہی اور شرک۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

بے عقل اور عقل مند انسان کی جو مثال قرآن میں بیان کی گئی ہے اس سے کونسے انسان مراد ہیں؟بے عقل اور عقل مند انسان کی جو مثال قرآن میں بیان کی گئی ہے اس سے کونسے انسان مراد ہیں؟

قرآنِ کریم میں عقل مند اور بے عقل انسان کی مثالیں اندھیرے اور روشنی، گونگے اور بولنے والے، یا زندہ اور مردہ کے فرق سے بیان کی گئی ہیں تاکہ

اللہ تعالیٰ قرآن میں پاکیزہ کلام بولنے کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟اللہ تعالیٰ قرآن میں پاکیزہ کلام بولنے کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

اللہ تعالیٰ قرآنِ حکیم میں پاکیزہ اور نرمی سے بھرپور کلام کو پسندیدہ اور بابرکت عمل قرار دیتا ہے۔ کلام صرف الفاظ کا تبادلہ نہیں بلکہ دلوں کا آئینہ اور