قرآنِ مجید نے دین کے ہر اصول کو واضح کر کے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں مکمل فرما دیا۔ عبادات، دعائیں اور میت سے متعلق جتنے بھی احکام ہیں، وہ سب وحی کے مطابق بیان ہو چکے ہیں۔ نبی ﷺ اور صحابہؓ نے نہ کبھی ایصالِ ثواب کیا نہ اس کے لیے کبھی جمعرات منائی، نہ چالیسواں، نہ سالانہ قل، اور نہ اس کا کوئی حکم قرآن یا حدیث میں دیا۔
رسول اللہ ﷺ کے بہت سے قریبی صحابہ کی وفات ہوئی، ام المومنین خدیجہؓ، نبی ﷺ کے چچا حمزہؓ، نبی ﷺ کی بیٹیاں مگر آپ نے کبھی ان کے لیے مخصوص دن پر ایصالِ ثواب کا اہتمام نہیں کیا۔ نہ کھانا پکوایا، نہ قرآن خوانی رکھی، نہ لوگوں کو جمع کیا، نہ سالانہ ختم کیا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے خود کوشش کی۔
(النجم 39)
عبادت میں صرف وہی چیز مشروع ہے جو نبی ﷺ کے عمل سے ثابت ہو۔ جو چیزیں دین میں شامل نہ کی گئیں، وہ بعد میں ایجاد کی جائیں تو بدعت بن جاتی ہیں، چاہے نیت کتنی بھی اچھی ہو۔
نبی ﷺ نے فرمایا
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے، وہ مردود ہے۔
(صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1718)
پس، ہر جمعرات کو، یا چالیسویں، یا سالانہ قل کے طور پر ایصالِ ثواب کرنا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ سنت سے۔ یہ طریقے بعد میں ایجاد ہوئے، اور اسوہِ نبی ﷺ کے خلاف ہیں۔ کوئی نیا کام دین نہیں بن سکتا دین مکمل ہوچکا ہے۔
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗا
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔
(المائدہ 3)
یہی کامل دین ہے، اور اسی پر جمے رہنا اصل نیکی ہے۔