قرآنِ مجید نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کی مدد کا ذکر اس لیے کیا تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو تسلی، حوصلہ اور یقین ملے کہ وہ اکیلے نہیں لڑ رہے، بلکہ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے۔ یہ ایمان اور توکل کی ایک زندہ مثال ہے کہ اللہ اپنے مخلص بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُم بِأَلْفٍۢ مِّنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ
جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی، کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔
(الأنفال 9)
یہ آیت بتاتی ہے کہ جب مسلمان کمزور اور تعداد میں کم تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن کر فرشتے بھیجے تاکہ وہ ڈٹے رہیں، اور ان کا اعتماد بڑھے۔
یہ مدد دراصل فتح کی اصل وجہ نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے اطمینان قلب اور نصرت کا وعدہ تھی۔ مسلمانوں کی کامیابی ایمان، اتحاد اور اللہ پر توکل کی بدولت ہوئی، اور فرشتوں کی مدد اس بات کی نشانی تھی کہ اللہ کی راہ میں قربانی دینے والوں کو ربّ العالمین تنہا نہیں چھوڑتا۔
لہٰذا، یہ واقعہ آج بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ جب بندہ خالص ہو کر اللہ سے مدد مانگتا ہے، تو اللہ آسمان سے مدد کے دروازے کھول دیتا ہے۔