قرآن حکیم کے مطابق عقیدہ کی اصلاح کے بغیر کوئی بھی معاشرہ حقیقی فلاح اور عدل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ پر ایمان، اس کی وحدانیت، اور آخرت کے یقین کو نظرانداز کر دیا جائے تو انسان صرف اپنی خواہشات، مفادات اور دنیاوی طاقت کے تابع ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ عدل باقی رہتا ہے، نہ رحم، اور نہ انسانی حقوق کا احترام۔ عقیدہ کی خرابی، دلوں کی خرابی ہے، اور دلوں کی خرابی اجتماعی بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس اپنا رخ دین کی طرف سیدھا رکھ، اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(الروم : 30)
یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کی فطرت اللہ کی بندگی اور توحید پر مبنی ہے۔ جب یہ فطرت بگڑ جاتی ہے، یعنی عقیدہ خراب ہو جاتا ہے، تو انسان اپنی اصل سے ہٹ جاتا ہے۔ یہی انحراف معاشرتی بدعنوانی، اخلاقی پستی، اور روحانی زوال کی بنیاد بنتا ہے۔
عقیدہ اگر درست ہو کہ انسان اللہ کا بندہ ہے، اس کے سامنے جواب دہ ہے، اور دنیا عارضی ہے تو پھر انسان خود کو قانون سے بھی اوپر نہیں سمجھتا، ظلم نہیں کرتا، مال میں خیانت نہیں کرتا، اور فتنہ و فساد سے بچتا ہے۔ لیکن جب یہ عقیدہ مٹ جاتا ہے تو معاشرہ فرعونیت، قارونیت اور ابلیسی سوچ کی آماجگاہ بن جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرعون، ہامان اور قارون کی مثالوں میں واضح کیا گیا۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر عقیدہ درست نہ ہو تو اخلاقیات بھی سطحی بن جاتی ہیں، اور انصاف، رحم، اور فلاح کے دعوے صرف لفظوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔ اس لیے انبیاءؑ نے سب سے پہلے عقیدہ کی اصلاح کی، تاکہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں روحانی بنیاد پر پاکیزگی اور عدل قائم ہو۔ عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک صالح، پرامن، اور فلاحی معاشرہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔