قرآنِ مجید کی التوبہ واحد سورت ہے جو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع نہیں ہوتی، اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں واضح اسباب معلوم کیے جاسکتے ہیں۔
التوبہ کا موضوع اعلانِ جنگ، عہد شکنی کرنے والے مشرکین سے براءت، اور ان کے خلاف سخت احکام پر مشتمل ہے۔ اس میں نرمی، رحمت یا صلح کی بات نہیں، بلکہ واضح قطع تعلق اور اللہ کے دشمنوں سے دوٹوک اعلان شامل ہے۔
اسی لیے صحابہ کرامؓ نے بھی اس سورت کو البراءۃ (بیزاری کی سورت) کہا، کیونکہ اس کا آغاز ہی یوں ہوتا ہے
بَرَآءَةٌۭ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
یہ براءت (اعلانِ بیزاری) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کے لیے ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔
(التوبہ 1)
صحابہؓ کا اجماع تھا کہ یہ سورت بسم اللہ کے بغیر ہی نازل ہوئی، اور عثمان بن عفانؓ نے قرآن کی جمع و ترتیب کے وقت باقی تمام سورتوں میں بسم اللہ لکھی، لیکن سورہ توبہ میں نہیں لکھی، تاکہ واضح ہو کہ اس کا آغاز دوسرے انداز میں ہے۔
نیز یہ کہ بسم اللہ رحمت و سلامتی کا پیغام ہے۔ جبکہ سورہ توبہ اللہ کے غصہ، تنبیہ، اور سزا کا اعلان ہے۔
ان دونوں مضامین میں تضاد ہے، اس لیے یہاں بسم اللہ نہیں لکھی گئی۔
پس، التوبہ کا آغاز بسم اللہ کے بغیر اس کے خاص مضمون کی مناسبت سے ہے کہ کفر سے قطع تعلق، عہد شکنی کرنے والوں سے براءت، اور ان کے خلاف جہاد کا اعلان۔