ایمان والوں کو سچائی کی تلقین کس انداز سے کی گئی؟

قرآنِ مجید نے ایمان والوں کو سچ بولنے، سچ پر قائم رہنے، اور سچوں کے ساتھ ہونے کی نہایت تاکیدی انداز میں تلقین فرمائی ہے، کیونکہ سچائی ایمان کا جوہر اور نجات کی بنیاد ہے۔ نبی کریم ﷺ اور تمام انبیاء علیہ السلام کی دعوت کا مرکزی اخلاقی پیغام بھی سچائی پر قائم تھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَكُونُوا۟ مَعَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
(التوبہ 119)

یہ آیت ایمان والوں کو دو بنیادی باتوں کا حکم دیتی ہے

اللہ سے ڈرنا یعنی تقویٰ اختیار کرنا اور سچوں کا ساتھ دینا، نہ کہ جھوٹوں، منافقوں یا اہلِ باطل کا۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا
سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف۔
(بخاری 6094، مسلم 2607)

ابوبکر صدیقؓ کو صدیق کا لقب اسی لیے ملا کہ وہ سچائی پر کامل تھے۔ سچائی نہ صرف زبان سے بات میں ہونی چاہیے، بلکہ عمل، نیت اور وعدے میں بھی۔ یہ وہ صفت ہے جس سے دل پاک ہوتا ہے، معاشرہ محفوظ ہوتا ہے، اور انسان اللہ کے نزدیک محبوب بن جاتا ہے۔

پس، قرآن کی روشنی میں سچائی ایمان کی علامت ہے، اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں صدق و راستی اختیار کرے، اور سچوں کی جماعت کا حصہ بنے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

اگر عقیدہ مضبوط ہو مگر عمل کمزور، تو کیا نجات ممکن ہے؟اگر عقیدہ مضبوط ہو مگر عمل کمزور، تو کیا نجات ممکن ہے؟

قرآن مجید کے مطابق عقیدہ (ایمان) نجات کی بنیاد ضرور ہے، مگر عمل اس ایمان کا ثبوت، مظہر اور تقاضا ہے۔ صرف زبانی ایمان یا قلبی تصدیق کے باوجود اگر

جھگڑا کرنے والوں کو قرآن کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟جھگڑا کرنے والوں کو قرآن کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟

قرآنِ حکیم جھگڑا کرنے والوں کو فساد، غرور اور دشمنی سے بچنے اور صلح و اصلاح کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن اختلاف کو انسانی فطرت کا حصہ مانتا ہے، لیکن