قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو اجتماعی نظم اور جنگی حکمتِ عملی کا جو درس دیا ہے، اس کی بنیاد صف بندی پر رکھی گئی ہے۔ صف بندی کا مطلب صرف جسمانی ترتیب نہیں، بلکہ دلوں کا اتحاد، نیتوں کا اخلاص، اور قیادت کے ساتھ مکمل وفاداری ہے۔ جب مسلمان اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کھڑے ہوں، تو ان کی صفیں اختلاف اور کمزوری سے پاک ہونی چاہییں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلَّذِينَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِهِۦ صَفًّۭا كَأَنَّهُم بُنْيَـٰنٌۭ مَّرْصُوصٌۭ
بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں ایسی صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
(الصف 4)
یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط، متفق، اور منظم ہو کر لڑتے ہیں۔ یعنی نہ کوئی رخنہ ہو، نہ کمزوری، اور نہ انانیت۔
نبی کریم ﷺ نے بھی صلوۃ میں صفوں کی درستگی کو بہت اہمیت دی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ
صفوں کو سیدھا کرو، ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔
(صحیح مسلم، حدیث 432)
یہی اصول میدانِ جنگ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر صفیں بگڑ جائیں تو دل بگڑتے ہیں، اور اگر دل بگڑ جائیں تو امت کمزور ہو جاتی ہے۔صحابہ کرامؓ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جنگ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کے مطابق قطاریں باندھتے، اپنے کمانڈر کی اطاعت کرتے اور نظم و ضبط کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے۔ ان کے اسی نظم، اتحاد اور توکل کی وجہ سے اللہ کی نصرت نازل ہوتی تھی۔
پس، قرآن اور سنت کا پیغام یہی ہے کہ اہلِ ایمان صرف عقیدہ میں نہیں بلکہ ہر میدان میں متحد، منظم اور تابعِ قیادت ہوں۔ ایسی صف بندی ہی ایک مضبوط ملت کی علامت ہے، اور اسی میں اللہ کی مدد اور نصرت کا وعدہ ہے۔