مسلمانوں کو نفاق سے کیسے بچنے کی ہدایت دی گئی؟

قرآنِ مجید نے نفاق (منافقت) کو دین کے لیے نہایت خطرناک بیماری قرار دیا ہے، کیونکہ منافق بظاہر مسلمان اور دل سے کافر ہوتا ہے۔ نفاق سے بچنے کے لیے قرآن نے مسلمانوں کو واضح ہدایات دی ہیں، تاکہ وہ خالص ایمان، اخلاص، اور سچائی کے ساتھ اللہ کی بندگی کریں۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بھی نفاق کے خلاف بھرپور تربیت دی اور سچے مؤمن بننے کی تلقین فرمائی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ آمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلَّذِى نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی۔
(النساء 136)

اس آیت میں ایمان والوں کو دوبارہ ایمان لانے کا حکم دیا گیا، یعنی ایمان کو صرف زبانی نہ رکھو، بلکہ دل، عمل اور اطاعت کے ساتھ اسے سچا اور پختہ بناؤ، تاکہ نفاق سے بچے رہو۔ نفاق کی بنیاد جھوٹ، دھوکہ، اور دنیا پرستی پر ہوتی ہے، اس لیے قرآن نے سچائی، اخلاص، اور اللہ سے ڈرنے کی دعوت دی۔

نبی ﷺ نے فرمایا
منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔
(صحیح بخاری 33، صحیح مسلم 59)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نفاق کا تعلق اعمال سے بھی ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے قول و فعل کو سچائی، دیانت اور وعدہ کی پابندی سے مزین رکھے۔

قرآن میں منافقین کی شدید مذمت کی گئی ہے
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ
بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔
(النساء 145)

یہ انجام ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ظاہری ایمان کافی نہیں، بلکہ دل کا اخلاص، عمل کی سچائی اور دین سے وفاداری ضروری ہے۔ نفاق سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہے، تنہائی میں بھی گناہ سے بچے، سچ بولے، وعدہ نبھائے اور دین کے کاموں میں سستی نہ کرے۔

پس، قرآن ہمیں نفاق سے بچنے کے لیے سچے ایمان، عملِ صالح، اور دل سے اللہ کی اطاعت کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ایمان کو مسلسل تازہ رکھیں، نیت کو خالص بنائیں، اور ہر اس عمل سے بچیں جو نفاق کی طرف لے جاتا ہے، تاکہ اللہ کے نزدیک سچے مؤمن شمار ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا انسان کی تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی ہے؟ یا وہ خود تقدیر لکھتا ہے؟کیا انسان کی تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی ہے؟ یا وہ خود تقدیر لکھتا ہے؟

قرآن و سنت کے مطابق انسان کی تقدیر پہلے سے اللہ تعالیٰ کے علم اور حکم سے لکھی جا چکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم اور فیصلہ پیدائش

جو اللہ کے حلال کو حرام ٹھرائے تو اس شخص پر اللہ کا کیا رد عمل ہے؟جو اللہ کے حلال کو حرام ٹھرائے تو اس شخص پر اللہ کا کیا رد عمل ہے؟

جو شخص اللہ کے حلال کو حرام ٹھہرائے یا اللہ کے احکام میں تحریف کرے، اس پر اللہ کا شدید ردعمل ہے۔ یہ عمل بغاوت، جھوٹ باندھنے اور دین میں