قرآنِ مجید ایمان اور عملِ صالح کو ہمیشہ ساتھ ساتھ بیان کرتا ہے، کیونکہ ایمان ایک باطنی کیفیت ہے، اور عملِ صالح اس ایمان کا ظاہری اظہار۔ ایمان اگر دل میں راسخ ہو، تو لازماً نیک اعمال کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی اس بات کی زندہ مثال ہے کہ ان کا ایمان صرف دعویٰ نہ تھا بلکہ قربانی، عبادت، صدق، عدل اور جہاد جیسے اعمال میں نمایاں تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّـٰتُ ٱلْفِرْدَوْسِ نُزُلًۭا
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کے لیے جنت الفردوس مہمانی کے طور پر ہے۔
( الکہف 107)
اس آیت میں واضح ہے کہ صرف ایمان کافی نہیں، بلکہ عمل صالح بھی ساتھ لازم ہے۔ یہی قرآنی پیغام متعدد جگہ دہرایا گیا ہے۔
ایمان کے بغیر عمل قابل قبول نہیں، کیونکہ نیت (یعنی ایمان) ہی عمل کو خالص بناتی ہے۔ اور عمل کے بغیر ایمان ناقص ہے، کیونکہ سچا ایمان انسان کو برائی سے روکتا اور نیکی کی طرف مائل کرتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
ایمان ستر سے کچھ اوپر درجے رکھتا ہے، ان میں سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث 35)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ ایمان کا اثر اعمال پر ضرور پڑتا ہے، اور معمولی نیکی بھی ایمان کا حصہ ہے۔
پس، قرآن کا اصول ہے ایمان + عمل صالح = نجات۔
یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان، دل کی گہرائی میں اللہ کی سچائی کو ماننے کا نام ہے، اور عمل صالح اسی یقین کا زمین پر عملی عکس ہے۔