اسلام میں قیادت و خلافت کا مقصد صرف اللہ کی حاکمیت کا قیام ہے، نہ کہ اقتدار کی جنگ۔ اور صحابی کی یہ شان نہیں ہے کہ اقتدار چھینے اور اسکے لئے جنگ کرے۔ نبی کریم ﷺ نے دین کو مکمل فرما دیا، اور صحابہ و اہلِ بیت نے اس کو تحفظ دیا۔ حسینؓ کا اقدام اجتہاد کی بنیاد پر تھا نہ کہ دنیاوی سلطنت کے حصول کے لیے۔
اہلِ کوفہ نے خطوط لکھ کر حسینؓ کو بلایا اور وعدہ کیا کہ وہ ان کی بیعت کریں گے، تو آپؓ گھر والوں سمیت کوفہ روانہ ہوئے۔ لیکن کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی انکی غداری سامنے آچکی تھی کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا۔ اہلِ کوفہ نے بیعت کے حوالے سے دھوکہ دیا اور ساتھ نہ دیا۔ پھر ادھر حسین ؓ ابن سعد کے دستے سے جنگ کا آغاز بھی نہیں کیا بلکہ شرائط پیش کر کے مذاکرات کی کوشش کی یزیدؒ سے بیعت کا باقائدہ اظہار کیا مگر اہل کوفہ کے ان لوگوں نے جو قافلے میں موجود تھے اسے پورا نہیں ہونے دیا اور اپنے جھوٹے خطوط سے خود کو موت کے خطرے میں محسوس کیا اور اسی پیرائے میں آپ کو شہید کر دیا اور جب خطوط نہ ملے تو خیموں کو آگ لگا دی۔
نبی ﷺ نے فرمایا
“حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِّنَ ٱلۡأَسۡبَاطِ”
“حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اسے محبوب رکھے جو حسین سے محبت کرے۔”
(جامع ترمذی: 3775، حسن صحیح)
اس حدیث میں حسینؓ کے مقام و مرتبے کی گواہی ہے۔ بحرحال نہ حسینؓ نے یزیدؒ کے ساتھ جنگ کی نہ یزیدؒ نے انہیں شہید کروایا نہ انکے قتل پر راضی تھا۔