خلافتِ ابوبکر صدیقؓ اسلام کی پہلی شرعی خلافت ہے، جس پر صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہوا۔ ان کی خلافت نہ غصب تھی، نہ جبر، بلکہ وہ شورٰی، اجماعِ صحابہؓ، اور نبی ﷺ کی اشاراتی تائید سے ہوئی۔ اس خلافت کا انکار صرف تاریخ کی نہیں، بلکہ صحابہؓ کے اجماع اور نبی ﷺ کی سنت کا انکار بھی ہے۔
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍۢ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ
“اور سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجر اور انصار، اور وہ جو ان کے نقش قدم پر چلیں، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔”
(سورۃ التوبہ: 100)
ابوبکر صدیقؓ ان “سابقون الاولون” میں سب سے اول ہیں۔ ان کی خلافت سے اللہ کے راضی ہونے کی دلیل ہے۔
“اقتدوا باللذين من بعدي: أبي بكرٍ وعمر”
“میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتداء کرو۔”
(سنن ترمذی، حدیث: 3662 – صحیح)
“إن الله بعثني إليكم فقلتُم كذبتَ، وقال أبو بكرٍ صدقَ، وواساني بنفسه وماله، فهل أنتم تاركو لي صاحبي؟”
“اللہ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا، تم نے جھٹلایا، اور ابوبکرؓ نے میری تصدیق کی، اور اپنی جان و مال سے میرا ساتھ دیا۔ کیا تم میرے اس ساتھی کو چھوڑ دو گے؟”
(صحیح بخاری، حدیث: 3661)
نبی ﷺ نے زندگی میں ان کی برتری، تصدیق اور قیادت کو تسلیم فرمایا، اور صحابہ کو ان کی اقتداء کی تلقین کی۔ نبی ﷺ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں صحابہؓ کا اجتماع ہوا، اور ابوبکرؓ کو خلیفہ چُنا گیا۔ عمرؓ، ابوعبیدہؓ، سعد بن عبادہؓ، تمام بڑے صحابہ نے ان کی بیعت کی۔ بعد میں تمام صحابہؓ نے بالاتفاق بیعت کر لی۔ یہ اجماع شرعی حجت ہے، اور اجماع کے بعد اختلاف بدعت ہے۔
علیؓ نے کچھ وقت بعد خلافتِ ابوبکرؓ پر بیعت کی، جسکی تفصیل بخاری کی حدیث نمبر: 4240 میں ہے اس سے واضح ہے کہ علیؓ نے ابوبکرؓ کی خلافت کو تسلیم کیا، اور کبھی ان پر غصب کا الزام نہیں لگایا۔
انکارِ خلافتِ صدیقؓ، صحابہؓ کے اجماع کا انکار، نبی ﷺ کی وصیت سے انحراف، اور امت کے اول ترین فہم کو جھٹلانا ہے۔ ابوبکرؓ کی خلافت حق ہے، اسے غصب کہنا تاریخی گمراہی اور توحیدی و اجماعی اصولوں کی کھلی مخالفت ہے۔