اسلام میں وسیلہ (توسل) کی صرف تین جائز اور مشروع اقسام قرآن و سنت اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے ثابت ہیں۔ ان اقسام میں دعا صرف اللہ سے کی جاتی ہے، اور کسی کو مؤثر یا سمیع نہیں سمجھا جاتا۔
اسلام میں دعا کا اصل مفہوم یہ ہے کہ بندہ براہِ راست اللہ سے مانگے، اس پر مکمل یقین رکھے، اور کسی کو اس کی ذات یا صفات میں شریک نہ کرے۔ اگر دعا ،میں “بحقِ فلاں” کہا جائے تو یہ شرک اور بدعت ہے۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ
“اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔”
(سورۃ غافر، آیت 60)
اللہ نے براہ راست خود کو پکارنے کا حکم دیا، نہ کہ کسی بندے کے “حق” کے واسطے سے۔
“إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله”
“جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ ہی سے مانگو۔”
(سنن الترمذی، حدیث 2516 – صحیح)
اس میں نبی ﷺ نے کسی کے واسطے سے دعاؤں کی تعلیم نہیں دی، بلکہ براہِ راست اللہ سے مانگنے کا حکم دیا۔
صحابہ کرامؓ کی دعاؤں میں ہمیں “بحقِ نبیك” یا “بحقِ فلان” کا صیغہ کہیں نہیں ملتا۔ عمرؓ نے قحط کے وقت عباسؓ سے دعا کروائی لیکن یہ نہیں کہا:
“اللهم إنا نسألك بحق نبيك”
بلکہ کہا:
اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبيك فاسقنا
(صحیح بخاری، حدیث 1010)
یعنی ہم تیرے نبی کے ذریعہ تجھ سے دعا کراتے تھے، اب ان کے چچا کے ذریعہ کرتے ہیں۔
مگر یہاں دعاء اللہ ہی سے ہے، اور “نبی ﷺ کی زندگی میں” ان سے دعا کروانا مراد ہے، نہ کہ وفات کے بعد “بحق” کہنا۔
وسیلے کی ناجائز اقسام یہ ہیں کہ وفات یافتہ سے دعا کروانا۔ یہ غیراللہ سے فریاد ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اللہ سے دعا میں “بحق فلاں” کہنا (جیسا کہ وضاحت کی گئی ہے یہ ناجائز اور حرام ہے۔
وسیلے کی جائز و مشروع اقسام یہ ہیں کہ اللہ کے ناموں اور صفات کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرنا، نیک عمل کے وسیلے سے دعا کرنا، زندہ نیک شخص سے دعا کی درخواست کرنا۔ اسی پر اکتفاء کر کے دین کو محفوظ کیا جائے۔