قرآنِ مجید میں یوسف علیہ السلام کی زندگی کو صبر اور تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی آزمائشیں، ظاہری ناکامیاں، اور لوگوں کی زیادتیاں اس وقت کامیابی میں بدل گئیں جب انہوں نے اللہ سے تعلق مضبوط رکھا، ہر حال میں گناہ سے بچنے کی کوشش کی، اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّهُۥ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ
یقیناً جو تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے، تو اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
( یوسف 90)
یہ آیت اس وقت کہی گئی جب یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا اور انہوں نے اپنے ظلم کا اعتراف کیا۔ مگر اس کے باوجود یوسفؑ نے نہ بدلہ لیا اور نہ سختی کی، بلکہ ان کے لیے معافی اور بھلائی کا راستہ اختیار کیا۔
اگر انسان ناحق مصیبتوں میں مبتلا ہو جائے لیکن گناہ سے بچے اور شکایت نہ کرے، تو اللہ اس کے صبر کو ضائع نہیں کرتا۔ تقویٰ کا مطلب صرف عبادت کرنا نہیں، بلکہ آزمائش میں بھی اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہے۔
کامیابی، عزت، اور انجامِ خیر اُنہی کے لیے ہے جو دل میں اللہ کا ڈر رکھتے ہیں اور زبان و عمل سے صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یوسفؑ کی پوری زندگی اس آیت کی عملی تفسیر ہے پاک دامنی، صبر، اللہ پر توکل، اور نرمی۔ لہذا حقیقی کامیابی دنیا کی وقتی آسائش یا لوگوں کی تعریف نہیں، بلکہ اللہ کے وعدوں پر یقین، صبر کی روش، اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنے میں ہے۔