اپنے گناہ کا الزام کسی اور لگانا کیسا ہے؟

اپنے گناہ کا الزام کسی اور پر لگانا اسلام میں ایک بہت سنگین گناہ ہے اور اسے ظلم، جھوٹ اور بہتان کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس عمل کی سخت مذمت کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں شدید عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔

وَمَنْ يَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا يَكْسِبُهٗ عَلٰي نَفْسِهٖ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا ۝ وَمَنْ يَّكْسِبْ خَطِيْۗئَةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهٖ بَرِيْۗـــــــًٔــا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۝

اور جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا اور جو شخص ارتکاب کرتا ہے غلطی جاننے والا بڑی حکمت شخص کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر کسی بےگناہ پر اس کا الزام لگا دیتا ہے وه ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیتا ہے۔
(النساء – 112)

بے گناہ عورتوں پر جھوٹ بولنا اور بہتان لگانا کے بارے میں فرمایا

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝

اور تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں پر بہتان لگائیں اور گواہ نہ پیش کریں، تو ان کی سزا یہ ہے کہ وہ سوٹے کے ذریعے سے چالیس کوڑے مارے جائیں اور ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے، اور وہ فاسق ہیں۔
(النور – 4)

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور بہتان باندھنا ایک سنگین گناہ ہے، اور ایسا کرنے والے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

اللہ نے “دعوت و تبلیغ” کا کیا طریقہ سکھایا ہے؟اللہ نے “دعوت و تبلیغ” کا کیا طریقہ سکھایا ہے؟

قرآنِ مجید نے دعوتِ دین کا انداز نہایت حکیمانہ، نرم، اور دلوں کو موہ لینے والا سکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اور ان کے ذریعے پوری

قرآن مجید میں گناہ چھپانے اور پھیلانے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟قرآن مجید میں گناہ چھپانے اور پھیلانے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟

قرآنِ مجید میں گناہ کو چھپانے اور اسے پھیلانے والے دونوں کو سخت وعید دی گئی ہے، کیونکہ یہ عمل فرد کی اصلاح کی بجائے فساد کو فروغ دیتا ہے۔

کیا تلاوتِ قرآن کی ابتداء میں تعوذ پڑھنا ضروری ہے؟کیا تلاوتِ قرآن کی ابتداء میں تعوذ پڑھنا ضروری ہے؟

جی ہاں، تلاوتِ قرآن کی ابتداء میں تعوّذ (یعنی أعوذُ باللهِ منَ الشيطانِ الرجيم) بڑھنے کے بارے میں قرآن سے اس کا حکم موجود ہے۔ فرمایا فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ