قرآن میں کچھ پیغمبروں کا ذکر ہے اور بہت سے پیغمبروں کا ذکر نہیں ہے اسکی کیا وجہ ہے؟

قرآن مجید میں کچھ انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ بہت سے انبیاء کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ قرآن کی حکمت، اس کا مقصد اور انسانوں کی رہنمائی کے لیے اس کا اندازِ بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وہی باتیں شامل کی ہیں جو ہدایت کے لیے ضروری ہیں اور جو انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔ورنہ قرآن ایک ناموں کی کتاب بن کر رہ گئی۔

1۔ تمام انبیاء کا ذکر کرنا قرآن کا مقصد نہیں تھا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۭ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ۝

اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے، ان میں سے کچھ کا ذکر ہم نے آپ سے کیا اور کچھ کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔
(غافر – 78)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف ان انبیاء کا ذکر کیا ہے جن کی داستانوں میں اہم اسباق، نصیحت اور ہدایت موجود ہے۔ انبیاء کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور سب کا ذکر قرآن کے محدود بیان میں ممکن نہ تھا۔

ہدایت کے لیے ضروری انبیاء کا ذکر کیا گیا
قرآن مجید کا بنیادی مقصد انسانوں کی ہدایت اور تربیت ہے۔ جن انبیاء کی زندگیوں میں ایسے واقعات اور تعلیمات تھیں جو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے مفید ہو سکتی تھیں، ان کا ذکر قرآن میں کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۝

یقیناً ان کے قصے میں عقل والوں کے لیے نصیحت ہے۔ یہ قرآن کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں، بلکہ یہ ان باتوں کی تصدیق ہے جو پہلے تھیں، اور ہر چیز کی تفصیل ہے، اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
(سورة یوسف 111)

انبیاء کا ذکر قرآن کے جامع انداز کا حصہ ہے
قرآن میں تقریباً 25 انبیاء کے نام ذکر کیے گئے ہیں، جن میں آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر شامل ہیں۔ ان انبیاء کے واقعات میں مختلف اقوام کے ساتھ پیش آنے والے حالات، انبیاء کی جدوجہد، اور اللہ کے احکام کی پیروی کے نتائج بیان کیے گئے ہیں، جو ہدایت کے لیے کافی ہیں۔

ان تمام انبیاء کا ذکر کرنا نہ تو ضروری تھا اور نہ ہی ممکن، کیونکہ قرآن ایک جامع کتاب ہے جو تمام انسانیت کے لیے رہنما ہے۔

ذکر نہ کرنے کی حکمت
تمام قوموں تک ہدایت پہنچانے کی تصدیق
اگرچہ قرآن میں سب انبیاء کا ذکر نہیں ہے، لیکن اس بات کی وضاحت ہے کہ ہر قوم کے لیے ہدایت بھیجی گئی

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ۝

یقیناً ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول بھیجا (اس پیغام کے ساتھ) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو تو اُن میں سے کچھ وہ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت عطا فرمائی اور اُن میں سے کچھ وہ تھے کہ اُن پر گمراہی ثابت ہوگئی تو زمین میں چلو پھرو پھر تم دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا۔
(النحل – 36)

فضول تفصیل سے اجتناب
قرآن میں صرف وہی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ۝

اور زمین میں جتنے بھی چلنے والے جانور ہیں اور جو پرندہ بھی اپنے دونوں بازوؤں سے اُڑتا ہے یہ سب تمھاری ہی طرح کی جماعتیں ہیں ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر وہ سب اپنے ربّ کی طرف جمع کیے جائیں گے۔
(الانعام – 38)

ہدایت کے لیے کافی قصے
قرآن کے انبیاء کے قصے انسانوں کو ہدایت، صبر، توکل، اور تقویٰ کی تعلیم دینے کے لیے کافی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے واقعے سے توحید پر کیا روشنی پڑتی ہے؟مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے واقعے سے توحید پر کیا روشنی پڑتی ہے؟

قرآنِ مجید میں مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا واقعہ اللہ کی قدرت اور توحید کی دلیل کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا