گناہوں کی معافی کی شرط کیا ہے؟

اسلام میں گناہوں کی معافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے، اور قرآن و سنت میں توبہ کی اہمیت اور قبولیت کے لیے کچھ شرائط بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے، بشرطیکہ بندہ خلوصِ دل کے ساتھ اپنی غلطیوں پر نادم ہو اور اصلاح کی نیت کرے۔

گناہ کو ترک کرنا
گناہ کو فوراً چھوڑ دے اور اس سے باز رہے۔
گناہ میں ملوث رہتے ہوئے توبہ قبول نہیں ہوتی۔

آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ
بندہ دل سے یہ ارادہ کرے کہ وہ آئندہ اس گناہ کی طرف نہیں لوٹے گا۔

معافی مانگنا (اللہ سے دعا)
بندہ خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگے اور اپنی توبہ میں عاجزی اختیار کرے۔
قرآن میں ہے
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ يَتُوْبُ عَلَيْهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝
پھر جس نے اپنے (اس) ظلم کے بعد توبہ کی اور (اپنی) اصلاح کرلی تو بےشک اللہ اُس کی توبہ قبول فرمائے گا بےشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
(المائدہ – 39)

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝
اور وہ لوگ جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو (فوراً ) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے بخشش مانگتے ہیں اور کون ہے جو اللہ کے سوا گناہوں کو بخشے اور جواُن سے سرزد ہوا وہ اُس پر جانتے بُوجھتےاَڑے نہیں رہتے۔
(آل عمران – 135)

حقوق العباد کی ادائیگی
اگر گناہ کسی دوسرے انسان کے حقوق کے خلاف ہو (مثلاً چوری، دھوکہ، یا غیبت)، تو توبہ کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص سے معافی مانگی جائے یا اس کا حق ادا کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

تقدیر پر ایمان کیا ہے؟ کیا انسان کے پاس اختیار ہے؟تقدیر پر ایمان کیا ہے؟ کیا انسان کے پاس اختیار ہے؟

تقدیر پر ایمان اور انسان کے اختیار کا مسئلہ اسلام میں نہایت اہم، نازک اور فہم طلب ہے۔ یہ ایمان کا حصہ بھی ہے اور فکری توازن کا تقاضا بھی

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ ٱلْمَثَانِى – کا کیا مطلب ہے، اور اس میں قرآن کی عظمت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ ٱلْمَثَانِى – کا کیا مطلب ہے، اور اس میں قرآن کی عظمت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟

“وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ ٱلْمَثَانِى وَٱلْقُرْءَانَ ٱلْعَظِيمَ”“اور بے شک ہم نے آپ کو سات بار دہرائی جانے والی آیات اور عظیم قرآن عطا فرمایا ہے۔”(الحجر: 87) اس آیت میں اللہ

قرآنِ مجید میں سچائی (الصدق) کو کن اعلیٰ صفات اور مقامات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؟قرآنِ مجید میں سچائی (الصدق) کو کن اعلیٰ صفات اور مقامات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؟

قرآنِ کریم میں سچائی (الصدق) کو ایمان کی علامت، نیکی کی بنیاد، اور اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ سچائی کو اختیار کرتے ہیں، اللہ