جو اللہ نے حرام کیا ہے اسے حلال کرنا کیسا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں، انہیں حلال کرنا یا ان کو معمولی سمجھنا بہت بڑا گناہ اور کفر کے مترادف ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے احکام میں تحریف کرنا یا حرام کو حلال قرار دینا گمراہی اور سرکشی ہے۔فرمایا

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ۝

اے ایمان والو ! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دو جنہیں اللہ نے تمہارے لیے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
(المائدہ ۔ 87)
کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ اللہ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے۔ ایسا کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے، اور ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہود و نصاریٰ کے علماء حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرتے تھے، اور لوگ انہیں مانتے تھے، اس لیے اللہ نے ان کی مذمت کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حرام کو حلال ماننے کا مطلب علماء کو رب بنانا ہے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
میری امت میں کچھ لوگ زنا، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال کر لیں گے (حالانکہ یہ سب حرام ہیں)، اور ان پر اللہ کا عذاب آئے گا۔
(صحیح بخاری 5590)

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف قرآن و حدیث کے مطابق حلال و حرام کو تسلیم کریں اور کسی بھی انسان یا نظام کی پیروی میں اللہ کے احکامات کو نہ بدلیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا مرنے کے بعد سوالات کے وقت اللہ اہل ایمان کو ثابت قدم رکھتا ہے؟کیا مرنے کے بعد سوالات کے وقت اللہ اہل ایمان کو ثابت قدم رکھتا ہے؟

جی ہاں، مرنے کے بعد قبر میں اور روز قیامت میں بھی سوالات کے وقت اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ثابت قدمی عطا فرماتا ہے۔ یہ بات قرآنِ مجید میں

موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں کیا سبق ملتا ہے؟موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں کیا سبق ملتا ہے؟

موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے سے بہت سے گہرے اسباق حاصل ہوتے ہیں، جو سورہ کہف (آیت 60 تا 82) میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ