موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے آغاز میں اللہ نے ان کو کیا اسباق سکھائے؟

موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ایک عظیم الشان واقعے سے ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست ان سے “وادئ مقدس طُویٰ” میں خطاب فرمایا۔ اس ابتدائی مرحلے میں اللہ نے موسیٰؑ کو توحید، بندگی، نبوت کی ذمہ داری، اور اللہ پر توکل جیسے اہم اسباق سکھائے، جو ہر داعی اور نبی کے لیے بنیاد ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
“إِنَّنِيٓ أَنَا ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدْنِي وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِذِكْرِي”
“بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کر، اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔”
(سورۃ طٰهٰ: 14)

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے موسیٰؑ کو یہ واضح کیا کہ صرف وہی معبود ہے، اور عبادت صرف اسی کے لیے ہے۔ نبوت کا آغاز خالص توحید سے کیا گیا تاکہ دعوت کی بنیاد میں شرک کا شائبہ نہ ہو۔ اللہ نے موسیٰؑ کو تعلیم دی کہ اللہ کی یاد کے لیے نماز قائم کرنا سب سے بنیادی عمل ہے۔ یہ ہر نبی کی سنت رہی ہے کہ وہ خود بھی نماز کے پابند رہے اور اپنی قوم کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے۔

اللہ نے موسیٰؑ سے فرمایا کہ اپنا عصا زمین پر ڈالیں، تو وہ سانپ بن گیا۔ پھر فرمایا کہ اسے دوبارہ اٹھائیں تو وہ اپنی اصل حالت میں واپس آگیا۔ یہ اس بات کا عملی مظاہرہ تھا کہ اللہ جسے نبوت دیتا ہے، اسے معجزات کے ذریعے مضبوط کرتا ہے، اور یہ کہ ظاہری خوف سے بڑھ کر اللہ پر بھروسا کرنا سیکھو۔

موسیٰؑ نے دعا کی
“رَبِّ ٱشْرَحْ لِى صَدْرِى… وَٱحْلُلْ عُقْدَةًۭ مِّن لِّسَانِى”
“اے میرے رب! میرے سینے کو کھول دے… اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔”
(طٰهٰ: 25-27)

یہ سکھاتا ہے کہ دین کی دعوت میں زبان کی صفائی، حکمت، اور نرمی ضروری ہے۔

موسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی تربیت میں توحید، عبادت، یقین، دعا، اور دعوت کی حکمت کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ ہر مومن، داعی یا عالم کے لیے یہی بنیادی اسباق ہیں اللہ پر ایمان، عاجزی، اور صبر و حوصلہ کے ساتھ حق کا پیغام پہنچانا۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ نبوت صرف معجزات کا نام نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد، توکل، اور اللہ کی رضا کے لیے خالص بندگی کا راستہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کونسے لوگوں پر ابلیس کا زور نہیں چلتا؟کونسے لوگوں پر ابلیس کا زور نہیں چلتا؟

قرآنِ مجید کے مطابق، ابلیس کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو مخلص مومن ہیں۔فرمایا اللہ کے مخلص بندے ہوں (عبادَكَ المُخلَصِين)یہ فقرہ ابلیس کے قول میں آیا ہے

اگر آباؤ اجداد کافر ہوں تو کیا ان سے دینی دوستی رکھی جاسکتی ہے؟اگر آباؤ اجداد کافر ہوں تو کیا ان سے دینی دوستی رکھی جاسکتی ہے؟

قرآن مجید واضح طور پر بتاتا ہے کہ اگر باپ،دادا یا کوئی قریبی رشتہ دار کفر اختیار کرے اور دین کے خلاف دشمنی پر اتر آئے، تو دینی دوستی اور