سورج، چاند اور ستاروں کے عبادت کرنے والوں کو ابراہیم علیہ السلام نے کیسے دعوت الی اللہ دی؟

ابراہیم علیہ السلام کی قوم ستاروں، چاند اور سورج کی پوجا کرتی تھی۔ وہ انہیں اللہ والی صفات سے متصف کرکے اپنا معبود مانتی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام نے نہایت حکمت اور بصیرت کے ساتھ ان کی غلط فہمی دور کرنے اور انہیں اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے کے لیے ایک فکری اور عملی حکمتِ عملی اپنائی، جسے الأنعام (74-79) میں بیان کیا گیا ہے۔

ستارے کی عبادت کا رد
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ ٱلَّيْلُ رَءَا كَوْكَبًۭا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّى ۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَآ أُحِبُّ ٱلءَافِلِينَ۝
پھر جب رات کا اندھیرا اس پر چھا گیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، (تو) کہا یہ میرا رب ہے، مگر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

حکمت
ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ستارے کو معبود کے طور پر پیش کیا تاکہ قوم کو ان کے عقیدے کی حقیقت دکھا سکیں۔ لیکن جب ستارہ غروب ہو گیا تو فرمایا کہ جو چیز خود فنا ہو جاتی ہے وہ معبود نہیں ہو سکتی۔

چاند کی عبادت کا رد
فَلَمَّا رَءَا ٱلْقَمَرَ بَازِغًۭا قَالَ هَٰذَا رَبِّى ۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِى رَبِّى لَأَكُونَنَّ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلضَّآلِّينَ۝
پھر جب اس نے چمکتا ہوا چاند دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔

حکمت
چاند کی روشنی ستارے سے زیادہ تھی، اس لیے ابراہیم نے اسے رب کہہ کر قوم کو مخاطب کیا، لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو اعلان کیا کہ یہ بھی معبود نہیں ہو سکتا، کیونکہ جو چیز خود ختم ہو جائے وہ رب کیسے ہو سکتی ہے؟

سورج کی پوجا کا رد
فَلَمَّا رَءَا ٱلشَّمْسَ بَازِغَةًۭ قَالَ هَٰذَا رَبِّى هَٰذَآ أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّآ أَفَلَتْ قَالَ يَٰقَوْمِ إِنِّى بَرِىٓءٌۭ مِّمَّا تُشْرِكُونَ۝
پھر جب اس نے سورج کو روشن اور بلند دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا اے میری قوم! میں ان تمام (معبودوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔

حکمت
ابراہیم علیہ السلام نے سورج کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھ کر اپنی قوم کی توجہ اس کی طرف مبذول کروائی، لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو انہوں نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ یہ سب معبود باطل ہیں، کیونکہ جو خود فنا ہو وہ رب نہیں ہو سکتا۔

توحید کا اعلان
إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ حَنِيفًۭا وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ۝
بے شک میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، یکسو ہو کر، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

حکمت
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو سمجھانے کے بعد اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا کہ وہ صرف اور صرف اس خالق کی عبادت کریں گے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جو ہمیشہ باقی رہے گا۔

ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کی خصوصیات
عقلی دلائل کا استعمال
ابراہیم نے ستارہ، چاند اور سورج کا ذکر کرکے قوم کو غور و فکر کی دعوت دی۔
انہوں نے فطری طریقے سے ثابت کیا کہ جو چیز خود فنا ہو جاتی ہے وہ رب نہیں ہو سکتی۔

بتدریج دعوت
پہلے ستارے کی عبادت کا رد کیا، پھر چاند کا، پھر سورج کا، اور آخر میں توحید کا اعلان کیا۔
اس سے ان کی قوم کو بتدریج احساس دلایا کہ ان کے معبود غلط ہیں۔

قرآن کی روشنی میں مضبوط استدلال
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اس دعوت کو قرآن میں ذکر کر کے ہمیں بھی دلیل اور حکمت سے دعوت دینے کی رہنمائی دی۔

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کی نشانیوں پر غور کرنا چاہیے اور صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا اللہ کے علاوہ مافوق الاسباب طور پر رزق میں کمی یا کشادگی کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟کیا اللہ کے علاوہ مافوق الاسباب طور پر رزق میں کمی یا کشادگی کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟

نہیں، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مافوق الاسباب طور پر رزق میں کمی یا کشادگی کا اختیار نہیں رکھتا۔رزق کا حقیقی خالق، قابض، اور تقسیم کرنے والا صرف اللہ

ایاک نعبد و ایاک نستعین – کا عقیدہ قبروں پر بزرگوں مانگی جانے والی دعاؤں سے کیسے متاثر ہوتا ہے؟ایاک نعبد و ایاک نستعین – کا عقیدہ قبروں پر بزرگوں مانگی جانے والی دعاؤں سے کیسے متاثر ہوتا ہے؟

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)(الفاتحہ 5) یہ قرآن مجید کی سب سے بنیادی آیت ہے جو عقیدہ توحید کا