اللہ کے سوا کسی کو پکارنے یا اس کی عبادت کرنے کے لیے کوئی آسمانی دلیل موجود نہیں ہے۔ حقیقی امن اور نجات انہی لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں اور شرک سے بچتے ہیں۔
الانعام میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ
وَكَيْفَ أَخَافُ مَآ أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِٱللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِۦ عَلَيْكُمْ سُلْطَٰنًۭا ۚ فَأَىُّ ٱلْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِٱلْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور میں ان (معبودوں) سے کیسے ڈروں جنہیں تم (اللہ کا) شریک بناتے ہو، جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ان کو شریک کیا ہے جن کے بارے میں اللہ نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی؟ تو دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے؟ اگر تم علم رکھتے ہو۔
(الانعام – 81)
اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ مشرکین نے جتنے بھی معبود بنا رکھے ہیں، ان کی حقانیت پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ یعنی ان کے معبود محض ان کے اپنے نفس اور خواہشات کا نتیجہ ہیں، اور ان کے پاس ان کی الوہیت کا کوئی حقیقی ثبوت موجود نہیں ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے سوال کیا کہ اگر میں تمہارے جھوٹے معبودوں سے نہ ڈروں، تو تم کیوں اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسے معبودوں کو شریک کر لیا ہے جن کے بارے میں اللہ نے کوئی سند یا دلیل نہیں اتاری؟
اس آیت میں سلطان کا لفظ دلیل اور برہان کے معنی میں آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی دوسرے معبود کی عبادت کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی اس پر کوئی وحی نازل کی۔
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ غور کرو، حقیقی امن کس کے لیے ہے؟ یعنی جو توحید پر ہے یا جو شرک میں مبتلا ہے؟
لہذا اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو ہی سچ ماننا چاہیے، نہ کہ لوگوں کی بنائی ہوئی باتوں کو۔