کیا مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چایئے؟

جی ہاں، قرآن مجید میں بارہا یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مومنوں کا بھروسہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہیے۔ ایمان کا لازمی جزو یہی ہے کہ انسان اپنے تمام معاملات میں اللہ پر توکل کرے اور اسی کو کارساز سمجھے۔

إِن يَنصُرْكُمُ ٱللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا ٱلَّذِى يَنصُرُكُم مِّنۢ بَعْدِهِۦ ۗ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ۝

اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا، اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے؟ پس ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
(آل عمران – 160)

قُل لَّن يُصِيبَنَآ إِلَّا مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلَىٰنَا ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ۝

کہہ دو ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، وہی ہمارا کارساز ہے، اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
(التوبہ – 51)

مومن اپنے تمام معاملات میں اللہ ہی کو وکیل، مددگار، اور کارساز سمجھتا ہے۔ وہ مصیبت، رزق، دشمنی، اور خوف جیسے حالات میں اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی سے مدد مانگتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

جو لوگ آخرت کے بجائے دنیا کے خواہشمند ہیں کیا انہیں کچھ اجر آخرت میں بھی ملے گا؟جو لوگ آخرت کے بجائے دنیا کے خواہشمند ہیں کیا انہیں کچھ اجر آخرت میں بھی ملے گا؟

جو لوگ آخرت کے بجائے صرف دنیا کی خواہش رکھتے ہیں، اور ان کی نیت، محنت، اور اعمال صرف دنیاوی فائدے کے لیے ہوتے ہیں ۔ قرآن کے مطابق انہیں

کیا انبیاء اخلاقی تعلیمات سے پہلے عقیدہ کی تعلیم دیتے تھے؟کیا انبیاء اخلاقی تعلیمات سے پہلے عقیدہ کی تعلیم دیتے تھے؟

قرآنِ حکیم کے مطابق تمام انبیاء علیہ السلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز ہمیشہ عقیدہ یعنی توحید کی تعلیم ہوتا تھا، نہ کہ محض اخلاقی اصلاحات سے۔ انبیاء علیہ السلام

صحابہ کرام کو “أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا” کیوں کہا گیا؟صحابہ کرام کو “أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا” کیوں کہا گیا؟

قرآنِ مجید نے صحابہ کرامؓ کے ایمان، اخلاص، اور قربانی کو سراہتے ہوئے انہیں حقیقی مؤمن قرار دیا ہے، کیونکہ انہوں نے ایمان کو صرف زبانی دعویٰ تک محدود نہیں