کیا غریب اگر کم خیرات کرے تو کیا قابل ملامت ہے؟

نہیں، غریب اگر کم خیرات کرے تو ہرگز قابلِ ملامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نیت اور اخلاص کی قدر ہے، نہ کہ مقدار کی۔ شریعت میں خیرات کی قبولیت کا دار و مدار اخلاص اور استطاعت پر ہے، اور غریب اگر تھوڑا بھی دے تو وہ اللہ کے ہاں بہت وزنی ہو سکتا ہے۔

ٱلَّذِينَ يَلْمِزُونَ ٱلْمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَـٰتِ وَٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ ٱللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

وہ لوگ جو صدقات دینے والے مؤمنوں پر طعن کرتے ہیں، اور ان پر بھی جو اپنی محنت کی طاقت کے مطابق ہی کچھ دے سکتے ہیں، انہیں مذاق بناتے ہیں، اللہ ان سے مذاق کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
(التوبہ – 79)

اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو ایک صحابی کی کم مقدار میں صدقہ دینے پر طعنہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طعنہ زنی کو خود اپنے خلاف مذاق قرار دیا اور ایسے منافقین کے لیے وعید نازل فرمائی۔

غریب کا تھوڑا دینا اخلاص اور محبت کی علامت ہے۔ ایسی خیرات پر اللہ راضی ہوتا ہے اور اسے مومن کے ایمان کی علامت شمار کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

مشرکین کے ساتھ صلح کے بعد کیا حکم دیا گیا؟مشرکین کے ساتھ صلح کے بعد کیا حکم دیا گیا؟

قرآنِ مجید نے مشرکین سے کیے گئے معاہدوں اور صلح کا احترام کرنے کا حکم دیا، بشرطیکہ وہ بھی اس معاہدے کی پاسداری کریں۔ دینِ اسلام عہد کی وفاداری اور

قرآن میں غرور اور خود پسندی کے متعلق کیا فرمایا گیا ہے؟قرآن میں غرور اور خود پسندی کے متعلق کیا فرمایا گیا ہے؟

قُرآنِ حکیم میں غرور اور خود پسندی کو سخت ناپسندیدہ صفات قرار دیا گیا ہے، جو انسان کو ہلاکت، تباہی اور اللہ کی ناراضی تک پہنچاتی ہیں۔ غرور دراصل دل