قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے کے بارے میں خاص ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ ہدایات مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، اور معاشرتی حدود کے تحفظ کے لیے دی گئی ہیں تاکہ وہ اپنی دینی شناخت کو برقرار رکھ سکیں اور ایسے تعلقات سے بچیں جو ان کے ایمان کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
اے ایمان والو ! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جس نے اُنھیں دوست بنایا تو بےشک وہ اُنھی میں سے ہے بےشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
(المائدہ – 51)
یہ آیت ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو دینِ اسلام کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ ان سے قریبی دوستی کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
جن کے دل میں مسلمانوں کے لیے دشمنی ہو انکے بارے میں فرمایا
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ۭ وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
آپ ان لوگوں کو کہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں، ایسا نہیں پائیں گے کہ یہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول سے دشمنی کی ہے ، اگرچہ وہ ان کے باپ ، یا انکے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے، اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعے انہیں قوت عطا کی ہے۔ اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جنکے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سب سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں۔ خوب سن لو اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔
(المجادلہ – 22)
قرآن مجید یہود و نصاریٰ یا دیگر غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مسلمانوں کو محتاط رہنے کا حکم دیتا ہے، خاص طور پر جب وہ مسلمانوں کے دین، عزت، یا معاشرتی نظام کے لیے خطرہ بنیں۔