يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ کا مفہوم ہے کہ
اے میری قوم! صرف اللہ کی عبادت کرو
یہ جملہ قرآن مجید میں کئی انبیاء کی زبان سے دہرایا گیا ہے، جیسے نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام، شعیب علیہ السلام علیہم السلام ان سب نے اپنی قوم کو یہی بنیادی پیغام دیا۔ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کرو۔
يَا قَوْمِ اے میری قوم!
یہ خطاب انبیاء کی محبت، خیرخواہی اور قوم سے قلبی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنی قوم کے لیے محض مبلغ یا ناصح نہیں تھے، بلکہ ان کے درد کو سمجھنے والے رہنما تھے۔
ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ اللہ کی عبادت کرو
عبادت صرف ظاہری رکوع و سجدہ کا نام نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے حکم کو ماننا اور اس کے مقابل ہر باطل قوت کو رد کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ
اللہ کو واحد رب، مالک، رازق اور حاکم ماننا، اس کی نافرمانی سے بچنا، اس کے سوا کسی کی پرستش یا اطاعت نہ کرنا۔
يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ انسان کی فطری اور عقلی آزادی کی پکار ہے کہ وہ ہر قسم کی بندگی، خواہ وہ بت ہو، انسان ہو، یا نفس کی خواہشات، ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ کی اطاعت کو اپنا لے۔ یہی تمام انبیاء کی دعوت کا پہلا اور بنیادی پیغام ہے، اور یہی وہ کلمہ ہے جو ایمان کی کنجی اور نجات کی بنیاد ہے۔
يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ
اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں
(الاعراف 59، 65، 73، 85 وغیرہ)
یہ الفاظ تقریباً تمام انبیاء کی دعوت میں مشترک رہے ہیں، اور اس میں شرک کی ہر قسم کی واضح نفی موجود ہے۔ اس ایک جملے میں تینوں بنیادی اقسام کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔
شرک فی الربوبیۃ (خالق، رازق، مالک ماننا)
اعْبُدُوا اللَّهَ کا مطلب ہے صرف اللہ کی بندگی اور عبادت اختیار کرنا، جو اسی وقت ممکن ہے جب انسان اللہ کو ہی خالق و مالک، رازق و مدبر، زندگی و موت دینے والا مانے۔ پس جو کسی اور کو ان صفات میں شریک مانے، وہ شرک ربوبیت کا مرتکب ہے، اور اس آیت میں اس کی سخت نفی کی گئی ہے۔
شرک فی الالوہیۃ (عبادت و دعاء میں شریک بنانا)
آیت میں لفظ اعْبُدُوا عبادت کا حکم دے رہا ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔
اس میں ہر قسم کی عبادات جیسے سجدہ، نذر، قربانی، دعا، فریاد، توکل، خوف، امید، استعانت یہ سب صرف اللہ کے لیے ہونی چاہییں، ورنہ وہ شرک فی الالوہیہ بن جائے گا۔ اس آیت میں اللہ کے سوا کسی کو معبود ماننے کی سختی سے نفی ہے۔
شرک فی الاسماء والصفات (اللہ کی صفات کسی اور کو دینا)
مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ یہ جملہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ کسی اور میں الہٰ (معبود) کی صفات پائی جاتی ہیں۔
لہٰذا کسی اور کو عالم الغیب سمجھنا، ہر جگہ حاضر و ناظر ماننا، نفع و نقصان کا مالک سمجھنا
یہ سب اللہ کی صفات کو غیراللہ کے لیے ثابت کرنا ہے، جو شرک فی الاسماء والصفات میں آتا ہے اور اس کی بھی اس آیت میں مکمل نفی کی گئی ہے۔