قرآنِ مجید نے یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر اس اعتبار سے منفرد انداز میں کیا ہے کہ وہ واحد قوم ہے جس پر عذاب کا فیصلہ ہونے کے باوجود، اجتماعی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عذاب کو ٹال دیا۔ اس واقعے میں اللہ کی رحمت، توبہ کی تاثیر، اور امتوں کے لیے نجات کا سنہرا اصول بیان کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيمَـٰنُهَآ إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ ۚ لَمَّآ ءَامَنُوا۟ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ ٱلْخِزْىِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَمَتَّعْنَـٰهُمْ إِلَىٰ حِينٍۢ
تو کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی اور اس کا ایمان اسے فائدہ دیتا، سوائے یونس کی قوم کے۔ جب وہ ایمان لائے، تو ہم نے دنیا کی زندگی میں اُن سے رسوائی کا عذاب ٹال دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ پہنچایا۔
( یونس 98)
اجتماعی توبہ عذاب کو روک سکتی ہے کہ قومِ یونس علیہ السلام نے عذاب کی علامات دیکھ کر سچے دل سے توبہ کی، اجتماعی طور پر اللہ کے حضور جھک گئے، اور ظلم و شرک چھوڑ دیا، جس پر اللہ نے اپنا طے شدہ عذاب روک دیا۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی رحمت ہمیشہ اس کے غضب پر غالب ہے، بشرطیکہ بندے سچے دل سے رجوع کریں۔
نبی کی نافرمانی سے وقتی محرومی ہو سکتی ہے، مگر رجوع پر بخشش یقینی ہے یونس علیہ السلام نے قوم سے ناراض ہو کر وقتی طور پر ترکِ مقام کیا، لیکن جب قوم نے خود رجوع کیا تو اللہ نے انہیں معاف کیا۔ بعد میں نبی بھی واپس لوٹے اور اصلاح کا عمل مکمل ہوا۔
ایمان کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ مقررہ وقت پر ہو قومِ فرعون یا دیگر اقوام نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا تھا، مگر وقت گزر چکا تھا۔ قومِ یونس نے عذاب کے آثار دیکھ کر، مگر اس سے پہلے کہ وہ آئے، فوراً رجوع کیا، اور یہی ان کی نجات کا سبب بنا۔
اللہ کی رحمت ہر قوم کے لیے ہے، شرط توبہ ہے۔ یہ واقعہ ہر دور کے انسان کو سکھاتا ہے کہ اگر ظلم، شرک، یا نافرمانی عام ہو چکی ہو، تب بھی اگر قوم اجتماعی رجوع کر لے، تو اللہ کی رحمت نازل ہو سکتی ہے۔
اس واقعے سے چند بڑے اسباق حاصل ہوتے ہیں۔
الغرض کہ قومِ یونس کا واقعہ قرآن میں رحمت، توبہ، اور ہدایت کا عظیم نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان صرف اس سے ڈرے، اسی سے امید رکھے، اور جب بھی خطا کرے، ندامت اور اصلاح کے ساتھ پلٹ آئے۔ یہی حقیقی نجات کا راستہ ہے، اور یہی امتِ مسلمہ ﷺ کے لیے کامیابی کی کنجی ہے۔