قرآنِ مجید نے یوسف علیہ السلام کا واقعہ بہترین اسلوب میں بیان فرمایا ہے تاکہ مومنین صبر، تقویٰ، عفت اور حسنِ تدبیر کے اصول سیکھیں اور زندگی میں ان پر عمل کریں۔ یوسفؑ کا قصہ بیک وقت مصیبت، آزمائش اور اللہ کی مدد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ یہ قصہ نبی کریم ﷺ کے دل کو تسلی دینے کے لیے بھی نازل ہوا، اور ہر دور کے ایمان والوں کے لیے ہدایت بن گیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَّقَدْ كَانَ فِى يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِۦٓ ءَايَـٰتٌۭ لِّلسَّآئِلِينَ
یقیناً یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں سوال کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
(یوسف 7)
یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے حسد، کنویں میں ڈالے جانے، غلامی اور قید جیسے مراحل میں کبھی اللہ سے شکایت نہ کی، بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا۔ جب عزیز مصر کی بیوی نے انہیں گناہ کی دعوت دی تو فرمایا معاذ اللہ! یعنی اللہ کی پناہ، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ تقویٰ اور عفت کی اعلیٰ مثال ہے کہ تنہائی، جبر اور نوجوانی کے باوجود انہوں نے اللہ کے حکم کو مقدم رکھا۔
اس کے بعد بھی قید ہوئی اور بادشاہ نے ان سے خواب کی تعبیر پوچھی، تو یوسفؑ نے سادہ الفاظ میں ایک عظیم معاشی منصوبہ بیان فرمایا۔ اسی بنیاد پر انہیں خزانے کا نگران مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں، جب بھائی معافی مانگنے آئے تو فرمایا
لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ ٱلْيَوْمَ
آج تم پر کوئی الزام نہیں۔
(یوسف 92)
یہ درگزر اور حلم، نبی کے کردار کی معراج ہے۔
یوسفؑ کا قصہ قرآن کا وہ منفرد واقعہ ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک مومن ہر حال میں صبر کرے، گناہ سے بچے، عقل و حکمت سے فیصلے کرے، اور ظلم کے باوجود معاف کر دینا سیکھے۔ یہی طرز عمل نبی کریم ﷺ کی سیرت میں بھی بارہا نظر آتا ہے، جو اس قصے کی عملی تعبیر ہے۔